افغانستان پر چین اور روس کا مشترکہ مؤقف، پوٹن اور شی کا رابطہ
چین کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ چینی اور روسی رہنماؤں نے بدھ کے روز افغانستان کے بارے میں بات چیت کی، لیکن جی سیون کی جانب سے طالبان سے 31 اگست کے بعد لوگوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے کے مطالبے کا اعادہ نہیں کیا، کیونکہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد لوگوں کی اکثریت اپنے تحفظ کے حوالے سے خوف کا شکار ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادی میر پوٹن نے گروپ آف سیون کے رہنماؤں کی بحران سے متعلق ملاقات کے ایک روز بعد بدھ کو ٹیلی فون پر افغانستان کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا۔
چین اور روس جی سیون کا حصہ نہیں ہیں، جو دنیا کی امیر جمہوریتوں کا ایک گروپ ہے ،جس میں امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا کہ امریکہ کو توقع ہے کہ 31 اگست تک انخلاء مکمل ہو جائے گا۔ دوسری جانب طالبان نے اس پر زور دیا ہے کہ اس وقت تک ملک سے تمام غیر ملکی انخلاء مکمل ہو جانا چاہیے۔
افغان طالبان کے خلاف پنج شیر میں مزاحمت کیوں ہو رہی ہے؟
افغانستان کا صوبہ پنج شیر 90 کی دہائی میں طالبان مخالف شمالی اتحاد کا مضبوط گڑھ ہے۔ مقامی افراد کے ذریعے ملنے والی معلومات کے مطابق طالبان جنگجو پنج شیر کے داخلی راستوں پر موجود ہیں۔ یہ علاقہ سیاسی، عسکری اور جغرافیائی لحاظ سے کتنا اہم ہے؟ جانتے ہیں وی او اے کے شمیم شاہد کی سارہ زمان سے گفتگو میں۔
افغانستان سے ہندوؤں اور سکھوں کا انخلا، بھارت میں متنازع شہریت بل پھر زیرِ بحث
بھارت کی جانب سے افغانستان سے اپنے شہریوں، افغان ہندوؤں اور سکھوں کو بحفاظت نکالنے کا عمل جاری ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 800 سے زائد افراد کو کابل سے بھارت لایا جا چکا ہے جن میں افغانستان میں بھارت کے سفیر اور سفارتی عملے کے لوگ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اب تک 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت آ چکے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضے اور پیدا شدہ بحران کے بعد جو لوگ افغانستان سے پناہ گزین کی حیثیت سے بھارت آنا چاہتے ہیں وہ صرف الیکٹرونک ویزا یا ای ویزا کے توسط سے ہی آ سکتے ہیں۔
ادھر مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری کے مطابق بھارتی شہریوں کے ساتھ کابل میں پھنسے ہوئے 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت پہنچ گئے ہیں۔
'افغانستان میں طالبان کی حکومت بنتی ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکے گا'
واشنگٹن میں کچھ ماہرین کابل پر طالبان کے کنٹرول کو پاکستان کی جیت قرار دے رہے ہیں مگر کیا آج کے طالبان پاکستان کے اسی طرح حامی ہیں جیسے 90 کی دہائی میں تھے؟ طالبان کی کامیابی پاکستان کے لیے کیا مواقع اور مشکلات پیدا کر سکتی ہے؟ دیکھیے سابق پاکستانی سفارت کار آصف درانی سے سارہ زمان کی گفتگو۔