عالمی ادارۂ صحت کی طیاروں کے ذریعے افغٖانستان میں طبی رسد پہنچانے کی اپیل
عالمی ادارۂ صحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کے ادارے کے پاس صرف "چند دن کی ضروریات پوری کرنے کا سامان باقی رہ گیا ہے'' اور انہیں وہاں کی طبی ضروریات کے لیے 10 سے 12 طیاروں میں طبی ساز و سامان پہنچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔
مشرقی بحیرۂ روم کے علاقے اور افغانستان کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر رک برینن نے قاہرہ میں بتایا کہ اقوام متحدہ کا صحت کا ادارہ اس سلسلے میں امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، تاکہ افغانستان میں درکار طبی ساز و سامان پہنچانے کے اقدامات کیے جا سکیں۔
برینن نے دبئی میں ایک ڈسٹری بیوشن سینٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "ہمارا اندازہ ہے کہ ہمارے پاس صرف چند دن کا سامان باقی رہ گیا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ افغانستان پہنچانے کے لیے ہمارے پاس 500 میٹرک ٹن رسد تیار ہے، لیکن ہمارے پاس اس ملک میں داخل ہونے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
برینن نے کہا کہ امریکہ اور دیگر شراکت داروں نے ڈبلیو ایچ او سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کابل کے ایئر پورٹ کی بجائے افغانستان کے دیگر ہوائی اڈوں کے بارے میں سوچیں، کیونکہ طالبان کے قبضے کے بعد سے کابل کے ایئرپورٹ پر انخلا کرنے والوں کو لے جانے والی پروازوں کا شدید دباؤ ہے۔
کابل کے میوزک اسکول کا مستقبل خطرے میں: 'یہاں ساز خاموش ہیں'
طالبان کی حکومت 2001 میں ختم ہوئی تو افغانستان میں ہر جانب تباہی پھیلی ہوئی تھی اور آسٹریلیا سے احمد سرمست افغانستان میں ایک مشن پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا مشن اپنے ملک میں فنِ موسیقی کی بحالی تھا۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں احمد سرمست نے جو اسکول قائم کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ اس ادارے میں بے گھر اور یتیم بچے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کر رہے تھے جس کا مقصد کابل سے رخصت ہونے والی رونقیں بحال کرنا تھا۔
گزشتہ ہفتے جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے تو آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں احمد سرمست خوف کے عالم میں یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ بعدازاں ان کے موبائل فون پر کالز کا تانتا بندھ گیا۔
سرمست کے اسکول میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے والے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور ان کے کئی سوال ہیں۔ کیا یہ اسکول بند ہو جائے گا؟ کیا طالبان ایک بار پھر موسیقی پر پابندیاں لگا دیں گے؟ کیا ان کے قیمتی ساز محفوظ رہیں گے؟
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے احمد سرمست کا کہنا تھا کہ "کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کابل میں طالبان کی واپسی اتنی غیر متوقع تھی کہ یہ واقعہ اچانک ہونے والا ایک دھماکہ محسوس ہوتا ہے جس نے ہر کسی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔
احمد سرمست گزشتہ ماہ موسمِ گرما کی چھٹیاں گزارنے کابل سے آسٹریلیا گئے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس ادارے کے قیام اور اسے آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ 20 برس سے وہ کام کر رہے تھے اچانک اس کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
افغان طالبان کی پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف مدد کرنے کی یقین دہانی
کابل پر قابض ہونے والے طالبان پاکستان مخالف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو روکنے میں پاکستان کی کتنی مدد کر سکتے ہیں؟ بتا رہے ہیں وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل
جی سیون اجلاس: طالبان کو تسلیم کرنے یا پابندیاں لگانے پر غور ہو گا
دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے حامل ملک (جی سیون) ایک ورچوئل اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں جہاں وہ اس بارے میں اتحاد قائم رکھنے کا عزم کریں گے کہ آیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا ان پر پابندیاں عائد کرنی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے دو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جی سیون رہنماؤں کا یہ اجلاس منگل کو ہو گا۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس اجلاس کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق واشنگٹن میں غیر ملکی سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد واشنگٹن کی جانب سے رابطوں میں فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ورچوئل اجلاس کا مقصد تعاون ہے۔
یورپی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ جی سیون ممالک کے رہنما اس بات پر اتفاق کریں گے کہ آیا طالبان کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، اور اگر انہیں تسلیم کرنا ہے تو وہ وقت کون سا ہو گا۔
سفارت کاروں کے بقول جی سیون ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کریں گے۔
یکم مئی کو افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلا شروع ہونے کے بعد طالبان کے انتہائی سرعت سے ملک پر قبضہ کرنے اور صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار کے بعد غیر ملکی حکومتیں تذبذب کا شکار ہیں اور ملک سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب بے چینی پیدا ہوئی ہے۔