توقع نہیں تھی کہ افغان جنگ اتنی طویل ہو جائے گی: رچرڈ آرمیٹیج
گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے افغاستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت رچرڈ آرمیٹیج امریکی نائب وزیرخارجہ تھے۔ انہوں نے جنگ کے لیے اتحاد قائم کرنے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے رابطے کئے۔ کیا انہیں توقع تھی کہ جنگ 20 سال چلے گی؟ دیکھیے رچرڈ آرمیٹیج کی سارہ زمان سے گفتگو۔
کابل سے پیر کو 90 فلائٹس سے تقریباً 16000 افراد کا انخلا کیا گیا
امریکی فوج نے کہا ہے کہ پیر کا دن افغانستان سے انخلاء کے لحاظ سے سب سے اہم دن رہا، لیکن دوسری جانب ایئرپورٹ پر ہلاکت خیز تشدد سے خوف و ہراس کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک اور خبر کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ اشارے ملے ہیں کہ وہ جلد ہی انخلا روکنے کے اقدامات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ 90 امریکی فوجی اور کمرشل پروازوں کے ذریعے پیر کی صبح تک 24 گھنٹوں کے دوران تقریباً16.000 ہزار افراد کو کابل سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا۔
پنٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ انخلاء کی تیز رفتاری کی وجہ کچھ حد تک طالبان کمانڈروں کے ساتھ ہوائی اڈے میں داخلے کے لیے ہم آہنگی ہے۔
کربی کا کہنا تھا کہ، "اب تک، اور مستقبل کے لیے بھی طالبان کے ساتھ مستقل ہم آہنگی اور تنازعے سے بچنے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے کہا کہ طالبان کے تعاون سے لوگوں کو ہوائی اڈے کے اندر آنے اور باہر موجود ہجوم کو کم کرنے میں مدد ملی۔"
ایک ہفتے سے زائد عرصے کے بعد، نہ صرف پہلی بار امریکی اندازوں کے مطابق کابل سے باہر بھیجے جانے والوں کی تعداد پوری ہوئی بلکہ بڑھ گئی۔ امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے بیرون ملک بھیجے جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 3،900 کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ رہی۔
افغانستان سے انخلا کے بعد دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس پر برا اثر پڑے گا، پیٹریئس
امریکی فوج کے سابق جنرل اور سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریئس نے کہا ہے کہ افغانستاں میں طالبان کا تیزی سے کنٹرول حاصل کر لینا انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ موجودہ بحران کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے اس اہم جنگ میں حکمت عملی کے تحت ضرورت کے مطابق صبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے تحت ایک آن لائن سیمینار میں پیٹریئس نے کہا کہ امریکہ کے اسٹرٹیجک نوعیت کے صبر کے فقدان سے اس دو عشروں پر محیط جنگ میں حاصل کی گئی کامیابیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور اس سے امریکہ کے دوسرے ممالک سے اتحاد کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے نئے تناظر میں القاعدہ اور داعش کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انٹیلی جنس حاصل کرنے کی صلاحیت محدود ہو جائے گی، اگرچہ خطے میں دوسری جگہوں سے امریکہ انٹیلی جنس حاصل کرتا رہے گا۔
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان کا کردار اہم ہو گا کہ وہ کتنے بہتر انداز میں اپنی سرزمین پر القاعدہ اور داعش کی طرف سے دہشت گردی کے خطرات کی نشاندہی کرے گا اور ان کا کس طرح قلع قمع کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے بلوچستان اور شمالی افغانستان کے علاقوں سے نکل جانے سے اب پاکستان کے لیے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنا قدرے آسان ہوگا۔
واضح رہے کہ وہائٹ ہاؤس بھی اپنے دفاعی عہدیداروں کے ان اندازوں پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وہاں انٹیلی جنس کی معلومات حاصل کرنے میں دقت ہو سکتی ہے اور دہشت گردی کے خطرات بھی ہو سکتے ہیں تاہم بائیڈن انتطامیہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ طالبان بین الاقوامی طورپر خود کو تسلیم کروانا چاہیں گے اوریہی وہ نکتہ ہے جس پر انہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو فعال نہ ہونے دیں۔
جنرل پیٹریئس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کامیابی کے لیے دو عشروں کا وقت ناکافی تھا اور امریکہ ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار فوجیوں کو افغانستان میں رکھ کر بہت کم لاگت اور جانوں کے زیاں کے بغیر طالبان کے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے جیسی صورت حال کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
کابل سے پیر کو 28 فلائٹس کے ذریعے ساڑھے دس ہزار افراد کا انخلا
امریکی فوج نے کہا ہے کہ پیر کا دن افغانستان سے انخلاء کے لحاظ سے سب سے اہم دن رہا، لیکن دوسری جانب ایئرپورٹ پر ہلاکت خیز تشدد سے خوف و ہراس کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک اور خبر کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ اشارے ملے ہیں کہ وہ جلد ہی انخلا روکنے کے اقدامات کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ 28 امریکی فوجی پروازوں کے ذریعے پیر کی صبح تک 24 گھنٹوں کے دوران تقریباً ساڑھے 10 ہزار افراد کو کابل سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔
پنٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ انخلاء کی تیز رفتاری کی وجہ کچھ حد تک طالبان کمانڈروں کے ساتھ ہوائی اڈے میں داخلے کے لیے ہم آہنگی ہے۔
کربی کا کہنا تھا کہ، "اب تک، اور مستقبل کے لیے بھی طالبان کے ساتھ مستقل ہم آہنگی اور تنازع سے بچنے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے کہا کہ طالبان کے تعاون سے لوگوں کو ہوائی اڈے کے اندر آنے اور باہر موجود ہجوم کو کم کرنے میں مدد ملی۔"
ایک ہفتے سے زائد عرصے کے بعد، نہ صرف پہلی بار امریکی اندازوں کے مطابق کابل سے باہر بھیجے جانے والوں کی تعداد پوری ہوئی بلکہ بڑھ گئی۔ امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے بیرون ملک بھیجے جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 3،900 کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ رہی۔
کابل سے افغان مہاجرین کا ایک گروپ وسکانسن کے فورٹ میک کوئے پہنچ گیا
پینٹاگان نے کہا ہے کہ اس نے نیو جرسی میں چوتھا امریکی فوجی اڈہ بھی افغان مہاجرین کے عارضی قیام کے لیے کھول دیا ہے۔
اس سے قبل ریاست ورجینیا، ٹیکساس اور وسکانسن میں تین فوجی تنصیبات پر مہاجرین کے عارضی قیام کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔
علاقائی آپریشنز کے جوائنٹ سٹاف کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل ہینک ولیمز نے صحافیوں کو بتایا کہ ان فوجی اڈوں پر اب تقریبا ً 1200 افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
ترجمان جان کربی نے بتایا کہ ان چار فوجی اڈوں پر مشترکہ طور پر 25 ہزار افغان پناہ گزینوں کے لیے گنجائش پیدا کی گئی ہے۔
14 اگست کے بعد سے پیر تک امریکہ تقریباً 37 ہزار لوگوں کو افغانستان سے نکال کر مختلف مقامات پر پہنچا چکا ہے جہاں انہیں ضروری سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ پانچ سے 9 ہزار افراد کو کابل سے پروازوں کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہی ہے۔