افغان تنازع میں قطر کا کردار؛ مستقبل میں کیا کر سکتا ہے؟
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی ہو یا دیگر علاقائی معاملات عرب ملک قطر گزشتہ کئی برسوں سے عالمی سیاسی منظر نامے پر متحرک ہے۔
خطے کے بعض ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود گزشتہ برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی راہ ہموار کرنے والے اس ملک کو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد اب بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد کابل سے نکلنے کے خواہش مند افغان پناہ گزینوں اور دیگر افراد کو لے کر بیشتر امریکی طیاروں کی پہلی منزل قطر ہی ہے جب کہ قطر میں ہی طالبان کے سیاسی دفتر میں ان دنوں چہل پہل نظر آتی ہے اور طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر قطر کے ہی ایک جہاز میں سوار ہو کر افغانستان پہنچ چکے ہیں۔
افغان امریکی خوف اور مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ میں رہنے والے افغان باشندوں کو تشویش لاحق ہے۔ انشومن آپٹے نے نیویارک اور امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں رہنے والے ایسے افغان باشندوں سے بات کی جو کسی دور میں امریکی فوج یا سرکاری اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں اور انہیں خوف تھا کہ وہ طالبان کا ہدف بن سکتے تھے۔
ائمہ نمازِ جمعہ میں اتحاد کا پیغام دیں: طالبان
طالبان نے ائمہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ نمازِ جمعہ کے خطبات میں اتحاد کا پیغام دیں۔
طالبان کی یہ ہدایت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب افغانستان پر قبضے کے خلاف احتجاج کا دائرہ دارالحکومت کابل تک پہنچ گیا ہے۔
جمعرات کو افغانستان کے 102 ویں یومِ آزادی کے موقع پر جلال آباد اور اسدآباد کے بعد کابل میں بھی شہریوں نے احتجاج کیا جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان عوام کی جانب سے طالبان کے قبضے کے خلاف سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو یہ نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ 'ہمارا جھنڈا ہماری پہچان ہے۔'
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی مقامات پر لوگوں نے طالبان کے لگائے گئے سفید جھنڈے بھی اتار لیے ہیں۔
'رائٹرز' کے مطابق سفید جھنڈے ہٹائے جانے یا افغانستان کے جھنڈے اتارنے سے متعلق ردِ عمل کے لیے طالبان کے ترجمان دستیاب نہیں ہیں۔
طالبان نے کابل کی سیکیورٹی حقانی نیٹ ورک کے حوالے کر دی؟
طالبان نے افغان دارالحکومت کابل کی سیکیورٹی حقانی نیٹ ورک کے سینئیر اراکین کے حوالے کردی ہے،جن کے القاعدہ سمیت غیر ملکی جہادی گروہوں کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کی رپورٹ کے مطابق، مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو یہ ذمہ داری دینا پریشان کن امر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کے وعدے کچھ جب کہ ان کا عمل کچھ اور ہے۔ طالبان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 1996ء سے 2001ء تک کے دور کے بر عکس اعتدال کا راستہ اپنائے گی۔
انٹیلی جنس عہدے داروں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ کو دوبارہ افغانستان میں میں راستہ دیا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ گزشتہ سال طالبان نے امریکی عہدیداروں سے قطر میں جو وعدے کئے تھے، ان کی پاسداری نہیں کی جائے گی۔ طالبان نے دوحہ میں وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین غیر ملکی جہادیوں کی آماجگاہ نہیں بننے دی جائے گی۔
جمعرات کے دن افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ، عبداللہ عبداللہ نے کابل میں خلیل الرحمٰن حقانی کی سربراہی میں آنے والے وفد سے ملاقات کی، مفاہمتی کونسل میں نامور عمائدین شامل ہیں جنھوں نے قطر کی بات چیت میں شرکت کی تھی۔ ۔
بعد ازاں، عبداللہ نے اس بات کا اعلان کیا کہ خلیل الرحمٰن حقانی افغان دارالحکومت کی سیکیورٹی کی نگرانی کریں گے، اور یہ کہ انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ''کابل کے شہریوں کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کی جائے گی''۔
امریکی محکمہ خزانہ نے فروری 2011ء میں خلیل الرحمٰن حقانی کو دہشت گرد قرار دیا تھا، اور کہا تھا کہ ان کے بارے میں اطلاع دینے والے کو 50 لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ ان کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں سے متعلق فہرست میں بھی شامل ہے۔
عبداللہ عبداللہ اور خلیل الرحمٰن حقانی کی ملاقات سے چند ہی گھنٹے قبل، طالبان نے افغانستان کی اسلامی امارات کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔
انٹیلی جنس کے ایک برطانوی عہدےدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''یہ ایک پریشان کن حقیقت ہے کہ خلیل الرحمٰن حقانی کو کابل کی سیکیورٹی کا انچارج بنایا گیا ہے''۔
بقول ان کے، حقانی اور القاعدہ کے آپس میں پرانے تعلقات ہیں، آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ دراصل وہ ایک ہی ہیں، اس لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ باہمی تعلقات منقطع کر دیں''۔
ایک ریٹائرڈ برطانوی سفارت کار ایور رابرٹس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کابل کی سیکیورٹی کی نگرانی حقانی نیٹ ورک کے حوالے کرنے کا اقدام ایسا ہے، جیسے'' آپ چوزوں کی رکھوالی لومڑی سے کروا رہے ہوں''۔
رابرٹس انسداد شدت پسندی کے پراجیکٹ میں ایک سینئر مشیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر حیران ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ پبلک ریلیشنز کے حوالے سے طالبان ہوش مند ثابت ہونگے، لیکن اس فیصلے سے ایسا نہیں لگتا
رابرٹس کے بقول، وہ اپنی تنظیم کا سب سے برا تاثر دینے والا پہلو سب کے سامنے رکھ رہے ہیں، جس سے خواتین، لڑکیوں اور سول سوسائٹی کو ایک خطرناک پیغام جائے گا۔ میرے خیال سے اس قدم سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ افغانستان دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔