مزار شریف کی چوکیاں، طالبان محافظوں کا انداز بچگانہ تھا
جیک سمکن جنگوں اور متنازع علاقوں کی فوٹوگرافی کرنے والے ایک فری لانسر ہیں۔ وہ اس ہفتے کے شروع میں افغانستان سے فرار ہو کر ازبکستان پہنچے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کو فون پر بتایا کہ مزار شریف قصبے سے سرحد تک سڑکوں پر بہت سی چوکیاں ہیں جنہیں نوجوان طالبان جنگجو سنبھالتے ہیں۔
سمکن نے ان کے ظاہری حلیے کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لئے 'goofy' یا 'بیوقوف' کا لفظ استعمال کیا۔
انہوں نے بتایا کہ "وہ ہمارے سوالات کے جوابات دینے اور تصاویر کے لیے پوز بنانے پر خوش تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچوں جیسے ہیں ۔ وہ سیلفیاں لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بندوقیں اور گولہ باردو ہے اور وہ اپنا لہجہ ترش اور آواز بلند کر سکتے ہیں۔"
نوجوان جنگجوؤں نے اسے بتایا کہ وہ "اپنے صوبے سے کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کو پاک کرنے" کے لیے آئے ہیں۔
سمکن کا کہنا تھا کہ کچھ مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ مقامی جنگجوؤں اور جنگی سرداروں عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور کے جانے پر خوش ہیں۔ ان دونوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں وہ بھاگ گئے تھے۔
مزار شریف افغانستان کا چوتھا بڑا شہر ہے، تاریخی اعتبار سے یہ شہر 1990 کے عشرے میں طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ایک مضبوط گڑھ تھا۔ انہوں نے 2001 میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد طالبان کو شکست دینے میں امریکی قیادت کی افواج کی مدد کی تھی۔
سمکن نے وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مزار شریف میں زیادہ تر خواتین 'خوف کے مارے' اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'زیادہ تر لوگ گھروں کے اندر رہ رہے ہیں، کیونکہ وہ ان خبروں سے پریشان ہیں کہ طالبان شادی کے لئے خواتین پسند کر رہے ہیں'۔
سمکن نے بتایا کہ انہوں نے مزار شریف میں نئے طالبان گورنر کے سیکیورٹی مشیروں سے ملاقات کی، جنہوں نے انہیں بتایا کہ "خواتین عام ملازمتوں پر واپس جا سکتی ہیں ۔ اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں، لیکن وہ ان اسکولوں میں جائیں گی اور ان اداروں میں کام کر سکتی ہیں جو صرف خواتین کے لئے ہوں ''۔
سمکن نے بتایا کہ سرحد پار ازبکستان جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ازبک حکام نے سرحد بند کر دی ہے، لیکن پیسے اور تعلقات والے لوگ سرحد پار جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بھی طالبان کنٹرول کررہے ہیں اور وہ لوگوں کو روک رہے ہیں۔ سمکن کا کہنا تھا کہ مجھے صرف یہ دکھ ہے کہ میں اپنے دوستوں کو افغانستان سے نہیں نکال سکا۔
طالبان نے سابق حکومت کے کلیدی عہدے داروں کوتحویل میں لینا شروع کر دیا
ناروے کے ایک انٹیلی جنس گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان نے اپنی ایک بلیک لسٹ میں درج افغان باشندوں کو تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے جن کے خیال میں وہ پچھلی افغان انتظامیہ یا امریکی قیادت والی افواج کے ساتھ کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
نارویجن سینٹر فار گلوبل اینالیسس (RHIPTO) کی طرف سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے سابقہ انتظامیہ سے منسلک افراد کو ہدف بنا رہے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "طالبان نے سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے تمام قریبی افراد کی تلاش تیز کر دی ہے اور ناکامی کی صورت میں وہ ان کے خاندان کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ انہیں اپنے شرعی قانون کے تحت سزا دیں گے۔"
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "خاص طور پر فوج، پولیس اور تحقیقاتی یونٹوں میں مرکزی عہدوں پر کام کرنے والے اہل کار زیادہ خطرے میں ہیں۔"
نارویجن سنٹر فار گلوبل اینالیسز کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "افغانستان رپورٹ" اقوام متحدہ میں کام کرنے والی ایجنسیوں اور افراد کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا، "یہ اقوام متحدہ کی تیار کردہ رپورٹ نہیں ہے، بلکہ ناروے کے غیر منافع بخش نجی مرکز برائے عالمی تجزیے نے یہ رپورٹ تیار کی ہے"
کیا افغانستان میں طالبان کے خلاف اب کوئی مزاحمتی تحریک ابھر سکتی ہے؟
طالبان کے ترجمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان دنیا کے سامنے ایک زیادہ اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چار صفحات کی رپورٹ میں سابقہ حکومت میں انسداد دہشت گردی کے ایک عہدے دار کے اپنے دوست کو لکھے گئے ایک خط کو شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے کابل میں اپنے اپارٹمنٹ سے حراست میں لینے کے بعد اس سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ سابق انتظامیہ کے سیکیورٹی فورسز کے ایک سینئر رکن نے صحافیوں کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ طالبان نے قومی سلامتی کی خفیہ دستاویزات حاصل کی ہیں اور طالبان سابق انٹیلی جنس اور سیکیورٹی عملے کو گرفتار کر رہے ہیں۔
"طالبان نے عسکری اور سیاسی طور پر بہت قبل تیاری شروع کر دی تھی"
افغانستان میں سابق امریکی سفیر ارل انتھنی وین نے وی او اے کی مونا کاظم شاہ سے گفتگو میں کہا کہ آنے والے دنوں ميں افغانستان ميں طالبان کو حکومت تشکيل دينے کے لیے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ان کا مزید کیا کہنا تھا، دیکھیے اس انٹرویو میں۔
اکثر امریکی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کی طوالت کے مخالف، سروے رپورٹ
امریکہ میں صدر بائیڈن کے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور سے نمٹنے کے بارے میں اگرچہ بڑے پیمانے پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اب بھی اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے کہ آیا افغانستان میں جنگ سود مند تھی۔
اس کا اندازہ ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی، سینٹر فار پبلک افئیرز ریسرچ کے رائے عامہ کے ایک جائزے سے ہوا ہے۔
جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اندازاً دو تہائی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ کی طویل ترین جنگ اتنی سود مند تھی کہ اتنی دیر تک لڑی جاتی۔
اس سروے میں 47% امریکیوں نے داخلی امور جب کہ52% نے بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں بائیڈن کی اہلیت کو سراہا۔
رائے عامہ کا یہ جائزہ اس سال 12 سے 16اگست کے دوران لیا گیا۔ جب افغانستان کی 20 سالہ جنگ ختم ہوئی اور طالبان اقتدار پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ اس میں 1729 لوگوں کی رائے لی گئی اور غلطی کی شرح 3.2% بیان کی گئی ہے۔