کیا طالبان کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک ابھر سکتی ہے؟
امریکی دارالحکومت میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن پر تنقید انخلا کے فیصلے پر نہیں ہو رہی، بلکہ انخلا کے طریقہ کار پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ اب افغانستان میں فیصلہ سازی کا مکمل اختیار طالبان کے ہاتھ میں ہے۔
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے اس قدر تیزی سے قبضے کی توقع نہیں تھی۔ ماہرین کے مطابق، اس سے امریکی فوج اور انٹیلی جنس کی مبینہ کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔
امریکہ کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں فلیچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی میں رائزنگ پاور الائنسز پراجیکٹ میں پوسٹ ڈاکٹورل سکالر فرینک او ڈونیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو اب صاف ہے کہ وائٹ ہاؤس کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے اس قدر جلد قبضے کی توقع نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات سے امریکی انٹیلی جنس اور عسکری حکام کی جانب سے حالات کا درست اندازہ لگانے اور انخلا کے دوران مختلف سطح پر فوج کی موجودگی برقرار رکھنے میں کمی نظر آتی ہے۔
امریکہ نے افغانستان کے ساڑھے 9 ارب ڈالر منجمد کر دیے
بائیڈن انتظامیہ نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کی حکومت کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے فنڈز منجمد کر دیے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ میں منگل کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ وزیر خزانہ جینٹ یلین اور غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول کے دفتر کے عہدے داروں نے کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے حکام بھی اس فیصلے میں شامل تھے، جب کہ وائٹ ہاؤس اس صورت حال کی نگرانی کر رہا تھا۔
انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "مرکزی بینک میں افغان حکومت کے اثاثوں کو، جو امریکہ میں موجود ہیں، طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیا جائے گا"۔
اخبار کے مطابق یہ فیصلہ ان اہم ترین متوقع فیصلوں میں سے ایک ہے جس کا سامنا بائیڈن انتظامیہ کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اس ملک کی معیشت کے بارے میں کرنا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو فنڈز منجمد کرنے کے لیے کسی نئے اختیار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پہلے ہی طالبان پر پابندیاں عائد ہیں۔
بلوم برگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فنڈزتک رسائی روکنے کے لیے واشنگٹن نے کابل کو نقد رقوم کی فراہمی روک دی ہے جس کا اثر وہاں کی معیشت پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔
طالبان پر سے امریکی پابندیاں ہٹ بھی جائیں تب بھی فیس بک کے دروازے بند رہیں گے
فیس بک کی پالیسی امور کی وائس پریذیڈنٹ مانیکا بیکرٹ نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان پر عائد تعزیرات عائد کرنا بند بھی کردے، تب بھی ہم ان پر سے بین نہیں اٹھائیں گے۔
فیس بک نے طالبان پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور حال ہی میں وائس ایپ پر ان کی ہیلپ لائن کا اکاؤنٹ بھی بند کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے افغان طالبان کو اس طرح غیرملکی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جس طرح اس نے پاکستانی طالبان کو کررکھا ہے۔لیکن واشنگٹن نے انہیں "خصوصی عالمی دہشت گرد" نامزد کرتے ہو تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔اس کے تحت امریکہ ان کے اثاثے منجمد اور ان کے ساتھ کام کرنے والے امریکیوں کو بلیک لسٹ کردیتاہے۔
فیس بک کی پالیسی امور کی وائس پریذیڈنٹ مانیکا بیکرٹ نے کہا ہے کہ چاہے انہیں امریکی قانون کے تحت اجازت ملتی ہے یا نہیں ملتی ، ہمیں اس بارے میں اپنی پالیسی کے تحت خود یہ تجزیہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے خطرناک تنظیموں سے متعلق ہماری پالیسی کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔
رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک نے طالبان کو دہشت گرد کروپ قرار دے کر اپنے پلیٹ فارم پر اس کا داخلہ بند کر رکھا ہے۔
طالبان اب ڈیجیٹل کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ افغان شہریوں اور بین الاقوامی کمیونٹی تک رسائی کے لیے دستیاب سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں، جن میں فیس بک کا پیغام رسانی کا ایپ ، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام وغیرہ شامل ہیں۔
افغانستان کی صورت حال پر بائیڈن اور آنگلا مرکل کی ٹیلی فون پر بات چیت
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز ٹیلی فون پر جرمن چانسلر آنگلا مرکل سے گفتگو کی جس دوران افغانستان کی صورت حال پر بات کی گئی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اخباری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں سربراہان نے کابل میں امریکی اور جرمن شہریوں، متاثرہ افغان باشندوں اور باہمت افغان شہریوں کے انخلا سے متعلق جاری کوششوں کو سراہا، جو دونوں ملکوں کی فوج اور سویلین اہلکار مل کر کر رہے ہیں۔
گزشتہ 20 برسوں کے دوران، دونوں ملکوں کی فوج اور سویلین اہل کاروں نے افغان عوام کو سیکیورٹی، امن کو فروغ دینے اور ترقیاتی امداد فراہم کرنے سے متعلق کام مل کر کرتے رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق، انھوں نے متاثرہ افغان شہریوں کو انسانی ہمدردی بنیادپر امداد کی فراہمی اور ہمسایہ ملکوں کی حمایت کرنے پر بات کی۔
دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ جی سیون کے اگلے اجلاس میں وہ اپنے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس کام کو آگے بڑھانے لیے مل کر کام کریں گے