دولت لوٹنے کے الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں، اشرف غنی
افغانستان کے جلا وطن صدر اشرف غنی کابل چھوڑنے کے بعد اب متحدہ عرب امارت میں پہنچ گئے ہیں، وہاں سے آج بدھ کے روز اپنے پہلے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ خون ریزی روکنے کے لیے کابل چھوڑنے کا فیصلہ کیا، اور ان پر دولت لوٹنے کے الزامات جھوٹے ہیں۔
ان پر سابق وزرا اور کئی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی کہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے پر وہ اپنے عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔
انہوں نے فیس بک پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ مجھے سرکاری حکام نے ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔
اشرف غنی نے اس الزام کی تردید کی کہ وہ ملک چھوڑتے وقت بہت سی دولت لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
میڈیا پر رپورٹ ہونے والی ان خبروں کو انہوں نے جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا جن میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنا ہیلی کاپٹر ڈالروں سے بھر کر لے گئے تھے۔
رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دوسرے لوگوں سے رابطے میں ہوں اور افغان عوام کو انصاف دلانے کے لیے میں واپس آؤں گا۔
افغان مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے ترکی نے ایران کی سرحد پر فوج تعینات کر دی
ترکی نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر مزید فوج تعینات کردی ہے تا کہ طالبان کے ملک پر کنٹرول سے پیدا ہونے والی صورت حال سے بھاگ کر آنے والے افغان مہاجرین کی ممکنہ نئی لہر کو روکا جا سکے۔
ترکی کو خدشہ لاحق ہےکہ افغانستان سےبڑی تعداد میں افغانی باشندوں کی ممکنہ سدحد عبور کرنے کی کوشش سے اسے پھر سے مہاجرین کے کسی نئے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے، ایسو سی ایٹڈ پریس نے بدھ کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ترکی پہلے ہی ایران کی سرحد پار کر کے وقفے وقفے سے آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافے سے نمٹ رہا ہے۔
اے پی نے ترکی اور ایران کے بارڈر پر افغان مہاجرین کے ایک گروپ سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کی فوج سے ہے اور وہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کے باعث ملک چھوڑ کر وہاں پہنچے ہیں۔
گروپ میں شامل فروز صدیقی نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ ضروت کے تحت اپنے ملک سے بھاگ کر بارڈر تک پہنچے ہیں اور امید ہے کہ ترکی کی حکومت ان کو قبول کرلے گی۔
فیروز نے بتایا کہ کس طرح گروپ میں شامل افراد پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہوتے ہوئےبھوکے اور پیاسے وہاں تک پہنچے ہیں۔
ایک اور شخص نثار احمد نے بتایا کہ رہزنوں نے ان سے پیسے اور موبائل فون چھین لیے۔
کابل:’سیکیورٹی کے حالات خراب نہیں لیکن لوگ سہمے ہوئے ہیں‘
افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے جلد نئی حکومت کے قیام کے علاوہ خواتین کو حقوق دینے اور میڈیا کو آزادی دینے کے اعلانات سمیت مختلف وعدے کیے ہیں۔ تاہم اب بھی کابل سمیت افغانستان بھر میں غیر یقینی کی فضا برقرار ہے۔
پہلی بار کیمروں کے سامنے آنے کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے عام معافی کا بھی اعلان کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان بدل چکے ہیں اور وہ اپنے سابق دورِ حکومت کی غلطیاں اس بار نہیں دہرانا چاہتے۔
لیکن ان اعلانات کے باجود طالبان کے طرزِ عمل اور مستقبل میں ان کی ممکنہ حکمتِ عملی سے متعلق کئی سوالات گردش میں ہیں۔
طالبان کے کنٹرول کے بعد اب افغانستان کی فوج کا مستقبل کیا ہو گا؟
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بعد جہاں ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں وہیں افغان فورسز کے لگ بھگ تین لاکھ اہل کاروں کا مستقبل بھی غیر یقینی ہو گیا ہے۔
رواں ماہ جب طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں کا رُخ کیا تو کئی علاقوں میں وہ بغیر مزاحمت کے اہم شہروں کا کنٹرول سنبھالتے چلے گئے۔
امریکہ کے صدر بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے گزشتہ 20 برس کے دوران تین لاکھ افغان فوج کو ہر طرح کی تربیت اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا تھا۔
صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ افغان فوج با آسانی لگ بھگ 75 ہزار طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ البتہ صدر بائیڈن کی توقعات کے برعکس افغان فوج ہتھیار ڈالتی گئی اور طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کا ایک بڑا حصہ غیر پشتون ہونے کے باوجود طالبان سے ہمدردی رکھتا تھا اور اُن کے خلاف لڑنے پر آمادہ نہیں تھا جب کہ افغان صدر اشرف غنی بھی اُنہیں متحد رکھنے میں ناکام رہے۔
افغان اُمور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کہتے ہیں کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے جس میں سرکاری افسران سمیت افغان فورسز کے اہل کار بھی آتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان ہتھیار ڈالنے والے افغان فوجیوں کو معاف کر دیں گے۔