طالبان کے بیانات نہیں عمل کو دیکھنا ہے: بورس جانسن
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ طالبان جو کچھ کہہ رہے ہیں ان کے بیانات کو نہیں دیکھنا بلکہ ان کے اقدامات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کی صورتِ حال پر برطانوی پارلیمنٹ کے خصوصی طور پر بلائے جانے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بورس جانسن نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ طالبان کا انسانی حقوق، دہشت گردی اور جرائم پیشہ کاموں جیسا کہ منشیات کی پیداوار کی روک تھام اور لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے سے متعلق کیسا رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے بیانات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ ہمیں ان کے اقدامات کو بھی دیکھنا ہو گا۔
یاد رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امن چاہتے ہیں اور وہ کسی بھی دشمن سے انتقام نہیں لیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ خواتین کا احترام کرتے ہوئے انہیں اسلامی قوانین کے تحت حکومت میں بھی شامل کریں گے۔
افغانستان کی صورتِ حال پر امریکہ میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟
طالبان کی ’واٹس ایپ ہیلپ لائن‘ بند، طالبان کی آزادیٴ اظہار کے خلاف کارروائی پر تنقید
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں نے عسکری گروپ سے وابستہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے شکایات کے اندراج کے لیے قائم کی گئی ایک واٹس ایپ ہیلپ لائن کو بند کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
دنیا کے مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے منگل کو کہا ہے کہ وہ طالبان کے افغانستان پر قبضے اور حکومتی امور میں مدد کے لیے مسیجنگ سروس استعمال کرنے کی کوشش کے بعد طالبان سے منسلک واٹس ایپ اکاؤنٹس کو بلاک کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ترجمان فیس بک کا کہنا ہے کہ طالبان پر امریکی قانون کے تحت دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی ہے اور ہم ہماری خطرناک آرگنائزیشن پالیسیز کے تحت ان کو اپنی خدمات سے روک رہے ہیں۔
حامد کرزئی کی طالبان رہنما سے ملاقات، حکومت سازی کے لیے بات چیت
طالبان کے اہم کمانڈر اور سینئر رہنما انس حقانی سے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں ایک وفد نے ملاقات کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان کے ذمہ داران نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ حکومت سازی کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے سابق صدر حامد کرزئی سے بات ہوئی ہے جب کہ اس ملاقات میں حکومتی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔
اس ملاقات سے متعلق معلومات دینے والے طالبان کے ذمہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی ہے اور انہوں نے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔
یاد رہے کہ حقانی نیٹ طالبان کا ایک اہم حصہ ہے جس کے کارندے پاکستان کی سرحد کے ساتھ سرگرم ہیں۔ اس گروپ پر حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں کئی بڑے حملوں کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔