کابل میں امریکی خاتون صحافی کی برقعے میں رپورٹنگ، 'حقیقت وہ نہیں جو بتائی جا رہی ہے'
امریکہ کے نشریاتی ادارے ’سی این این‘ سے منسلک خاتون رپورٹر کلیریسا وارڈ کی کابل میں رپورٹنگ کے دوران دو مختلف تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جس پر یہ بحث جاری ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد خاتون رپورٹر کا لباس بھی بدل گیا ہے۔
کلیریسا وارڈ کی ایک تصویر اس وقت کی تھی جب وہ 15 اگست کو کابل میں ایک کمپاؤنڈ کے اندر سے رپورٹنگ کر رہی تھیں اور اس وقت تک طالبان افغان دارالحکومت میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ دوسری تصویر 16 اگست کی ہے جس میں خاتون رپورٹر کو برقعے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان ملک پر قابض ہو چکے تھے اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے تھے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق خاتون رپورٹر کی ان دونوں تصاویر کو بعض سوشل میڈیا صارفین ایک ساتھ شیئر کر کے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ طالبان کے قبضے سے پہلے اور بعد کی صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔
امریکہ کی طویل ترین جنگ کا اختتام ایسے کیوں ہوا؟
افغانستان سے متعلق امریکی حکمتِ عملی پر بحث جاری ہے۔ پاکستان کے لیے سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے وی او اے کی مونا کاظم شاہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی حکام کو افغانستان میں بیس سال کے دوران کبھی اتنے تسلسل سے کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ وہ مقامی سطح پر گہرے روابط قائم کر پاتے۔
کابل سے انخلا کے آپریشن میں تیزی
افغانستان سے غیرملکی شہریوں اور افغان باشندوں کے انخلا کا عمل جاری ہے جس میں مزید تیزی آ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مغربی سیکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ 2200 سے زیادہ سفارتی عملے کے علاوہ دیگر عام شہری افغانستان سے بذریعہ ملٹری فلائٹس روانہ ہو چکے ہیں۔
ویسٹرن سیکیورٹی آفیشل کا کہنا ہے کہ شہریوں کے انخلا میں عمل میں تیزی آئی ہے اور اب تک سفارتی عملے کے علاوہ ان افغان شہریوں کو بیرونِ ملک منتقل کیا جا چکا ہے جنہوں نے دو دہائیوں کے دوران غیر ملکی سفارت خانوں کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اب تک واضح نہیں ہے کہ عام شہریوں کے لیے پروازوں کا آغاز کب سے ہو گا۔
دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے اپنے شہریوں کے انخلا پر توجہ ہونی چاہیے: سینیٹر ٹیڈ کروز
امریکی سینیٹ میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے رکن اور ریاست ٹیکساس سے ری پبلکن رہنما ٹیڈ کروز نے امریکیوں کی افغانستان سے بحفاظت واپسی کے ان کے بقول واضح منصوبہ نہ ہونے پر تنقیدی بیان جاری کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی کہ انہوں نے تمام امریکیوں کو افغانستان سے نکالنے یا 31 اگست کے بعد بھی انخلا جاری رکھنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ یہ چیز ان کے بقول مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن اور ان کے مشیروں کو دوسروں پر انگلیاں اٹھانا اور دوسروں کو الزام دینا بند کر دینا چاہیے اور اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے پر توجہ دینی چاہیے۔
سینیٹر ٹیڈ کروز کے بقول، "کانگریس کے بہت سے دیگر اراکین اور میں نے اپنے اسٹاف اور وسائل کو منظم کیا ہے کہ ہم اپنے لوگوں اور ان کے خاندانوں اور دیگر ایسے افراد کو افغانستان سے نکالنے میں ہر طرح کی مدد کر سکیں جو وہاں سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر بائیڈن کے پاس پہلے سے کوئی منصوبہ ہونا چاہیے تھا اور اب انہیں چاہیے کہ امریکی عوام کو یقین دہانی کرائیں کہ ان کی پوری انتظامیہ امریکی شہریوں کے انخلا کے کسی منصوبے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے پر کام کر رہی ہے۔