افغانستان میں آنے والی تبدیلیاں پاکستان کے لئے کیسی ثابت ہوں گی؟
افغانستان کے تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے پر اس وقت پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ سیاسی انتقامی کاروائیوں، اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے خدشے کے پیش نظر جو افراد ملک سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں، انہیں طالبان قیادت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
ماضی کے رویوں کے برعکس طالبان راہنما خواتین صحافیوں کو ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے بھی نظر آئے اور کابل کے ہزارہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں محرم الحرام کے سلسلے میں منعقد کی گئی مجلس میں بھی شرکت کرتے بھی۔ یہ حیرت انگیز مناظر دنیا غیر یقینی کی کیفیت میں دیکھ رہی ہے اور یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ طالبان کا نیا جنم ہے؟ کیا طالبان واقعی اپنا وہ سخت گیر نظریہ اور بربریت ترک کر چکے ہیں جو ان کا خاصا ہوا کرتی تھی؟
وائس آف امریکہ اردو کے ساتھ ایک خصوصی فیس بک لائیو بیٹھک میں واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس نے، جو طالبان کی تحریک نو اور احیا پر تحقیقی کتاب 'طالبان ریوائیول' کے مصنف بھی ہیں، افغانستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان گزشتہ دس سالوں سے اپنی تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملا برادر کی 20 سال بعد افغانستان آمد
کابل میں طالبان جنگجوؤں کی آمد کے باوجود شہر کا ماحول بظاہر پرامن ہے۔ افغانستان کی تازہ ترین صورت حال کے کچھ پہلوؤں کی تفصیل جانتے ہیں اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نذرالاسلام سے سارہ زمان کی گفتگو میں۔
افغانستان کی صورتِ حال پر بھارت کی خاموشی پر آوازیں اُٹھنے لگیں
افغانستان پر طالبان کے قبضے اور اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے دو روز بعد بھی بھارت کی جانب سے وہاں کی صورت حال پر تاحال باضابطہ طور پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
البتہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کی ساری توجہ افغانستان میں پھنسے اپنے شہریوں کو نکالنے پر مرکوز ہے۔
بین الاقوامی امور کے ایک سینئر تجزیہ کار اور صحافی حسن کمال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھار ت کی خاموشی سے ایسا لگتا ہے جیسے اسے خبر ہی نہیں ہے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ پورے ملک پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
انہوں نے اس صورتِ حال کو بھارت کی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ بھارت کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے صرف اشرف غنی پر اعتبار کیا۔ اب اشرف غنی جا چکے ہیں تو یہاں کی حکومت کچھ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ اسے کس قسم کا ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ اس نے طالبان کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ امریکہ جو کہ 20 برسوں سے طالبان سے لڑ رہا ہے وہ ان سے بات کر رہا ہے۔ اسی وقت بھارت کو سنبھل جانا چاہیے تھا اور اشرف غنی کے علاوہ دیگر افغان دھڑوں سے بھی بات چیت کرنی چاہیے تھی۔
طالبان کو تسلیم کرنا قبل از وقت ہے: امریکہ
امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے وائٹ ہاؤس میں منگل کو افغانستان کی صورتِ حال پر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل سے امریکی شہریوں کی انخلا کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں افواج کام کر رہی ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے اور یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے کس طرح پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کا ماضی کچھ اچھا نہیں رہا ہے اور اس موقع پر انہیں تسلیم کرنے سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔