امریکہ سمیت 65 ملکوں کا غیر ملکیوں کے محفوظ انخلا کا مطالبہ
امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، قطر اور نیوزی لینڈ سمیت 65 ملکوں نے مشترکہ اعلامیے میں مطالبہ کیا ہے کہ غیر ملکیوں اور ان افغان شہریوں کو محفوظ انداز میں ملک چھوڑنے کی اجازت دی جائے جو اپنی خوشی سے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے اتوار کو جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں جو اقتدار میں ہیں اور جن کے پاس اختیار ہے ان پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی جانوں اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور وہی اس کا حساب بھی دیں گے۔
مشترکہ بیان میں افغانستان میں فوری طور پر سیکیورٹی اور امن و عامہ کی صورتِ حال کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بیان میں میں کہا گیا ہے کہ ملک چھوڑنے کے خواہش مند افغان عوام اور غیر ملکی شہریوں کو انخلا کی اجازت دی جائے جب کہ سڑکیں، ہوائی اڈے اور سرحدی گزرگاہوں کو کھلا رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغان عوام محفوظ، پرامن اور باعزت زندگی گزارنے کے مستحق ہیں۔ عالمی برادری افغان عوام کی مدد کرنے کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
طالبان نے افغان صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال لیا
افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے اہم ارکان نے کابل پہنچ کر صدارتی محل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
کابل شہر کے مختلف مقامات پر جنگجوؤں نے کئی اہم سیکیورٹی چیک پوسٹوں کا چارج بھی لے لیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگجوؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کابل میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تاکہ لوٹ مار کے واقعات کو روکا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کے بقول طالبان کے حالیہ اقدامات شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔
تمام فریقین پر مشتمل حکومت کے لیے بات چیت جاری ہے: طالبان
طالبان کے ایک ترجمان اور مذاکرات کار سہیل شاہین نے کہا ہے کہ جنگجو گروپ کی جانب سے اس وقت مذاکرات جاری ہیں، جس کا مقصد افغانستان میں ''کھلے دل سے، تمام فریقوں کی شراکت داری پر مشتمل اسلامی حکومت تشکیل دینا ہے۔''
ایسو سی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے، سہیل شاہین نے کہا کہ معاملات طے ہونے کے بعد صدارتی محل سے نئی حکومت سے متعلق اعلان کیا جائے گا۔
تاہم، اے پی کی رپورٹ کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ ابھی آگے نہیں بڑھا۔
اس سے قبل، طالبان گروپ کابل کے اندر داخل ہوا، جس کے بعد امریکہ کی جانب سے سفارت کاروں اور دیگر سویلینز کے فوری انخلا کا کام تیزی سے نمٹایا جانے لگا۔
ادھر واشنگٹن سے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک اور خبر کے مطابق، سفارت کاروں اور سویلینز کے انخلا میں مدد دینے کے لیے، اضافی 1000 فوجیوں کو کابل روانہ کیا جا رہا ہے، جس کے بعد انخلا کے معاملے سے متعلق امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 6000 ہو جائے گی۔
امریکی دفاع کے ایک اہل کار نے اتوار کے دن ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ 82 ایئربورن ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اسٹینڈ بائی 1000 فوجیوں کو کویت کے راستے سے نہیں بلکہ براہ راست کابل روانہ کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے
اشرف غنی کی روانگی کا علم ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں تھا: رپورٹ
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں ملک چھوڑنے کی تصدیق کر دی ہے، تاہم یہ نہیں لکھا کہ وہ استعفی دے رہے ہیں، دوسری طرٖف ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اشرف غنی کے افغانستان چھوڑنے کا علم ان کے چند قریبی ساتھیوں کے سوا کسی کو نہیں تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغان صدر نے اپنے گنتی کے چند ساتھیوں کے ساتھ اتنی خاموشی سے صدارتی محل چھوڑا کہ طالبان کے ساتھ انتقال اقتدار کے لیے مذاکرات میں مصروف ان کے سیاسی ساتھیوں کو بھی پتا نہ چل سکا کہ وہ جلاوطنی اختیار کر رہے ہیں۔
اشرف غنی نے اپنی روانگی کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں آج ایک مشکل فیصلہ درپیش تھا، کہ وہ مسلح طالبان کا مقابلہ کرتے یا ملک چھوڑتے۔ ان کے پیغام کے مطابق اگر وہ ملک میں ٹہرتے تو لاتعداد لوگ مارے جاتے۔ کابل تباہ ہو جاتا اور وہاں رہنے والوں کو ایک سانحےاور المیے کا سامنا کرنا پڑتا'۔انہوں نے پیغام میں لکھا ہے کہ 'طالبان کو فتح تلوار اور بندوق کے زور پر ہوئی ہے اور اب طالبان عوام کی عزت، زندگیوں اور املاک کی سلامتی کے لیے جوابدہ ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے دل نہیں جیتے ہیں۔ تاریخ میں کبھی کسی کو طاقت کے ذریعے قانونی جواز حاصل نہیں ہواہے'۔
خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، کابل سے اشرف غنی کی روانگی بالکل ویسے ہی ہوئی، جیسے ان کی آمد ہوئی تھی، جب وہ صدر بننے کے لیے کابل کے ایئرپورٹ پر اترے تھے; یعنی تنہا اور اکیلے۔
صدر غنی کے طویل عرصے سے حریف اور ان کے ساتھ شریک اقتدار رہنے والے عبداللہ عبداللہ نے ان کی روانگی پر یہ تبصرہ کیا، "دارالحکومت کو تنہا چھوڑنے پر وہ خدا کو جواب دہ ہوں گے"۔
مزید پڑھیے