افغانستان کی افواج کو دوبارہ منظم کرنا پہلی ترجیح ہے: صدر اشرف غنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ہفتے کو مقامی میڈیا پر نشر ہونے والے ایک مختصر خطاب کے دوران کہا کہ ان کی پہلی ترجیح افغانستان کی فوج کو دوبارہ منظم کرنا ہے۔
صدر اشرف غنی نے یہ خطاب ایک ایسے موقعے پر کیا ہے جب طالبان دارالحکومت کابل کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور کئی صوبائی دارالحکومتوں پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔
اشرف غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ افواج کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے بہت سنجیدہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
افغان صدر نے خطاب میں اپنے مستعفی ہونے سے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی موجودہ حالات کی ذمہ داری قبول کی۔ قبل ازیں یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ وہ اشرف غنی ہفتے کو مستعفی ہو سکتے ہیں۔ جب کہ سوشل میڈیا پر بعض صحافیوں نے کہا کہ وہ اپنے استعفے کے حوالے سے ویڈیو پیغام ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ تاہم ان کے خطاب نے ان افواہوں کو ختم کر دیا۔
مزید پڑھیے
طالبان جنگ جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل کہاں سے حاصل کر رہے ہیں؟
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی اور ملک کے نصف کے قریب صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے بعض حکام اور عالمی مبصرین کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔ خاص طور یہ سوال اہم ہے کہ اس بڑے پیمانے پر لڑائی جاری رکھنے کے لیے طالبان مالی وسائل کہاں سے حاصل کر رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق طالبان کی تیز ترین پیش قدمی کا تعلق ان کے پاس موجود بڑے پیمانے پر مالی وسائل سے ہے جس کے نتیجے میں اس گروہ کو کروڑوں اور شاید اربوں ڈالرز تک رسائی ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان مالی وسائل جمع کرنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں اس کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ البتہ طالبان جنگجوؤں کی مالی اعتبار سے موجودہ خود انحصاری سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ گروپ کی آمدن 30 کروڑ ڈالرز سے ایک ارب 60 کروڑ ڈالرز سالانہ تک ہو سکتی ہے۔
رواں برس جون میں جاری ہونے والی دیگر ممالک کی فراہم کردہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مبنی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان زیادہ تر افیون کی پیداوار، منشیات کی اسمگلنگ، بھتے اور اغوا برائے تاوان جیسی مجرمانہ سرگرمیوں سے مالی وسائل حاصل کر رہے ہیں۔
ایک خفیہ ادارے کا کہنا ہے کہ اس میں صرف منشیات کی اسمگلنگ سے ہونے والی کمائی ممکنہ طور پر 46 کروڑ ڈالرز سالانہ سے زائد ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل سے بھی اضافی رقم حاصل کی ہے۔ انہیں گزشتہ برس کان کنی سے 46 کروڑ ڈالر سے زائد رقم حاصل ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان قیادت کو ’غیر سرکاری خیراتی اداروں‘ اور امیر حامیوں سے بھی بڑی تعداد میں عطیات اور امداد ملتی ہے۔
مزید پڑھیے
امریکی فوجی سفارتی عملے کے بحفاظت انخلا کے لیے کابل پہنچ گئے
افغانستان سے کچھ امریکی سفارت کاروں اور ہزاروں افغان باشندوں کو تیز رفتاری اور حفاظت سے نکالنے کے لئے امریکی فوج کی میرین فورس کی پہلی بٹالین جمعے کے روز کابل پہنچ گئی ہے۔ یہ قدم افغانستان میں طالبان کے تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے اور کابل کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔
امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے بتایا کہ بٹالین کے ارکان اب کابل میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اختتام ہفتہ امریکہ اپنے مزید فوجی کابل میں بھیج رہا ہے تاکہ مزید امریکیوں اور ان کے افغان ساتھیوں کو جلد از جلد وہاں سے نکالنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
افغانستان میں امریکہ اپنا فوجی مشن اس مہینے کے آخر تک مکمل کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف طالبان تیزی سے صوبوں پر قبضے کرتے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین کے مطابق اس وقت ملک کے دو تہائی علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور وہ تیزی سے دارالحکومت کابل کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ جمعے کے روز انہوں نے چار صوبوں کے صدر مقام اپنے قبضے میں لے لیے۔
مزید پڑھیے
طالبان کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں؛ پینٹاگان کا انتباہ
طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں بظاہر کابل پر قبضہ جمانے کے لیے اپنی کارروائیوں کی رفتار تیز کر دی ہے۔
طالبان نے جمعے کو افغانستان کے پانچ بڑے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں بالترتیب افغانستان کا دوسرا بڑا شہر قندھار اور تیسرا بڑا شہر ہرات بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل طالبان غزنی کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جو قندھار سے کابل کی جانب جانے والے راستے کا کلیدی شہر ہے اور دارالحکومت سے صرف 150 کلو میٹر فاصلے پر ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق طالبان جنگجوؤں نے کابل سے 50 کلو میٹر دور پڑاؤ ڈالا ہے۔ جب کہ امریکہ اور دیگر ممالک نے اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
افغانستان میں داخلی سلامتی کی صورتِ حال پر واشنگٹن میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جمعے کو امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں وہ (طالبان) کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کابل کی صورت حال سے متعلق کہا تھا کہ ابھی وہاں زیادہ بڑے خطرے کا ماحول نہیں ہے۔
البتہ انہوں نے طالبان کی پیش قدمی کی رفتار کو ’گہری تشویش‘ کا باعث قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیے