رسائی کے لنکس

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا میں سستی غیر منطقی: طالبان


ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ صرر اوباما کا فیصلہ طالبان کو ملک پر قابض فوج کے خلاف ’’اپنے تیزی سے جاری جہاد‘‘ کو نہیں روکے گا۔

طالبان نے صدر براک اوباما کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عمل کو سست کرنے کے فیصلے کو ’’غیر منطقی‘‘ قرار دیا ہے اور امریکی اہداف پر حملوں میں تیزی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

جمعہ کو صدر براک اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کی تعیناتی کے منصوبے میں ترمیم کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ 2016 میں بھی امریکی فوجیوں کی موجودہ تعداد افغانستان میں تعینات رہے گی جبکہ 2017 میں اقتدار چھوڑنے کے وقت تک ان کی تعداد کم کر کے 5,500 کر دی جائے گی۔

اس سے قبل امریکی انتظامیہ نے 2016 کے بعد صرف ایک ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جن کا مقصد کابل میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت کرنا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ’’افغانستان پر قبضہ ختم نہیں کرے گا‘‘ اور اس کے ’’جعلی وعدوں‘‘ کا مقصد صرف افغان اور امریکی عوام کو بیوقوف بنانا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ صرر اوباما کا فیصلہ طالبان کو ملک پر قابض فوج کے خلاف ’’اپنے تیزی سے جاری جہاد‘‘ کو نہیں روکے گا۔

جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں وزیر دفاع ایش کارٹر، نائب صدر جو بائیڈن اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ اپنے بیان میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ ’’میں لامتناہی جنگ کی حمایت نہیں کرتا۔ میں نے بار بار غیر معینہ مدت کی ان جنگوں میں شریک ہونے کے خلاف بات کی ہے جن سے ملک کے بنیادی سلامتی مفادات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘

مگر صدر نے کہا کہ ’’بنیادی بات یہ ہے کہ ملک (افغانستان) کے اہم علاقوں میں سلامتی کی صورتحال اب بھی بہت نازک ہے اور کچھ علاقوں میں اس کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔‘‘

’’امریکہ کا لڑاکا مشن بھلے ختم ہو گیا ہو مگر افغانستان اور اس کے عوام کے لیے ہماری حمایت اب بھی برقرار ہے۔ کمانڈر انچیف ہونے کی حیثیت سے میں افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے کی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ ہمارے ملک پر دوبارہ حملہ کر سکیں۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ’’دونوں صدور کے درمیان کئی ماہ سے جاری مذاکرات‘‘ کا نتیجہ ہے۔

غنی نے کہا کہ یہ فیصلہ ’’ایک بار پھر امریکہ اور افغانستان کے درمیان باہمی مفادات کی بنیاد پر شراکت داری کی تجدید کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے کہا کہ امریکہ طویل مدت تک افغانستان میں استحکام کے فروغ کے لیے پر عزم ہے اور ان کامیابیوں کو ہاتھ سے نہیں جانے دے گا جنہیں حاصل کرنے کے لیے امریکی فوجوں نے سخت جنگ کی۔

کارٹر نے کہا ہے کہ افغانستان میں 2016ء کے بعد تعینات رہنے والے فوجی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور معاونت میں شریک ہوں گے۔ یہ فوجی کابل، بگرام فضائی اڈے، جلال آباد اور قندھار میں فوجی اڈوں پر تعینات رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG