’’سوچتی ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہر روز جی ہوں۔ اور ہر روز مری ہوں۔ سڑک پے چھوڑا تھا اس نے مجھے بچی کے ساتھ۔ یہاں پہ کوئی بھی نہیں تھا میرا۔ ذرا سی انگلش بھی نہیں آتی تھی۔ دوپٹہ لٹکتا تھا میرا۔‘‘
یہ الفاظ روزینہ ملک کے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے پسند کی شادی کر کے تئیس سال کی عمر میں امریکہ آنے والی روزینہ ملک کو نہیں معلوم تھا کہ شادی کے چار سال بعد ہی انہیں شوہر سے طلاق مل جائے گی اور انہیں ایک اجنبی دیس میں خود کو اور اپنی ڈیڑھ سالہ بچی کو اکیلے سنبھالنا پڑے گا۔
بقول اُن کے، ’’کس منہ سے جاتی واپس پاکستان۔ لوگ تو یہی کہتے، دیکھو طلاق لے کر آئی ہے۔ آج کسی بھائی کے سہارے وہاں پڑی ہوتی یا کسی اور سے شادی کر دی گئی ہوتی۔ میں یہ سب نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے میں نے امریکہ میں رہنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
روزینہ ملک کو طلاق کی قانونی کارروائی سے نمٹنے کے لیے امریکہ میں ایک وکیل نے ’پروبونو سروسز‘ یا مفت خدمات مہیا کیں۔ ’پروبونو‘ لاطینی زبان کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے ’’عوام کی بھلائی کے لیے‘‘ ۔ امریکہ میں قانونی خدمات مہیا کرنے والی متعدد فرمز ایسے لوگوں کو مفت وکلا فراہم کرتی ہیں جن کے پاس اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے رقم اور وسائل نہیں ہوتے۔
انھوں نے کہا کہ ’’وکیل نے میرا طلاق اور بچی کی تحویل کا معاملہ اچھے سے نمٹا دیا۔ مگر اصل جنگ تو اس کے بعد شروع ہوئی۔ اور میں نے گیس سٹیشن اور مختلف چھوٹے سٹورز پر نوکری شروع کی۔ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے محض چھ ڈالر فی گھنٹہ ملتے تھے اور میں مشکل سے ’’بچی کی ضروریات پوری کر پاتی تھی‘‘۔
روزینہ ملک نے اس قسم کی معمولی ملازمتیں کرتے کرتے بالآخر ایک ایسا کام شروع کیا جو ان کے مطابق امریکہ میں رہنے والی پاکستانی خواتین نہیں کرتیں۔
روزینہ ملک نے کہا کہ ’’میں نے ڈرائیونگ سیکھی اور پھر یہاں ریاست ورجینیا میں لیموزین چلانی شروع کی۔ دس ڈالر فی گھنٹہ تو مل جاتے تھے مگر میرے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی ڈرائیورز اور کمیونٹی میں مجھے طعنے اور طنز سننا پڑتے تھے۔ میں سب سن سکتی تھی مگر میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ میری بچی پر آنچ آئے۔ اس لیے کچھ عرصے بعد مجھے وہ کام چھوڑنا پڑا۔‘‘
جس کے بعد روزینہ نے گزشتہ سال بینک سے ایک لاکھ ڈالر کا قرض لے کر ایک ایسے کاروبار کی بنیاد رکھی جس میں انھیں ایک مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا تھا۔ روزینہ ملک نے اس رقم سے ریاست ورجینیا کے علاقے مناسس میں ایک ریسٹورنٹ کھولا جہاں انہوں نے ’میکسیکن‘ کھانا فراہم کرنا شروع کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’میکسیکن کھانا امریکہ میں ہر شخص کو پسند ہے۔ مگر میں نے سوچا کیوں نہ حلال کھانے کو ترجیح دینے والے امریکی مسلمانوں کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ امریکہ میں پاکستانی کھانے کے علاوہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ مل کر کچھ اور کھا سکیں۔ لہٰذا، میں نے اس میکسیکن کھانے میں حلال اشیا کا استعمال شروع کیا ہے۔‘‘
روزینہ ملک کا یہ ریسٹورنٹ ریاست ورجینیا کے ایک ایسے علاقے میں قائم ہے جہاں زیادہ تر سفید فام لوگ رہتے ہیں۔ مگر یہاں ملنے والا کھانا مسلم اور غیر مسلم افراد میں یکساں مقبول ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روزینہ کو میکسیکن کھانا بنانا نہیں آتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’’میں پوری رات یوٹیوب سے میکسیکن کھانوں کی ترکیبیں سیکھتی تھی اور صبح آ کر یہاں لوگوں کو بنا کر کھلاتی تھی۔ جب لوگوں نے میرا کھانا سراہنا شروع کیا تو میں زیادہ پر اعتماد ہوگئی۔ اب میرے پاس تین میکسیکن افراد ملازمت کرتے ہیں جو یہ کھانا بنانے میں میری مدد کرتے ہیں۔‘‘
امریکہ میں رہنے والی سنگل خواتین جو طلاق یافتہ ہوں ان کے لیے مشکلات میں اور اضافہ اس صورت میں ہو جاتا ہے جب وہ تارک وطن ہوں۔ زبان پر عبور نہ ہونا اور آس کے پاس کے ماحول سے ناواقفیت زندگی کو اور بھی مشکل بنا دیتی ہے۔
روزینہ ملک اسی قسم کی مشکلات کو عبور کر کے آج ایک ایسے مقام پر پہنچی ہیں جہاں وہ اب مطمئن ہیں۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ امریکہ ان جیسی سنگل مدرز کے لیے دنیا کی بہترین جگہ ہے۔
بقول ان کے ’’مجھے یہاں بہت سہولیات ملی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ جس بات نے مجھے ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ یہاں رہنے والے لوگ ہیں۔ سفید فام لوگوں نے جتنی میری اور میری بچی کی مدد کی ہے میں وہ کبھی نہیں بھول سکتی۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب کرسمس پر لوگ لفافوں میں تھوڑے پیسے ڈال کر میرے گھر چھوڑ جاتے تھے اور جب میں کہتی تھی کہ میں تو کرسمس نہیں مناتی تو وہ بولتے تھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ میری بچی کے ڈائپرز اور دودھ جیسی بنیادی چیزیں چپ چاپ میرے دروازے پر چھوڑ جاتے تھے۔ کبھی افسوس بھی ہوتا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی یا مسلمانوں نے میری اس طرح یہاں مدد نہیں کی۔ اس لیے اب یہی میرا ملک ہے۔ میں امریکہ سے بہت پیار کرتی ہوں۔‘‘
مگر امریکہ سے اس قربت کے باوجود، روزینہ ملک کی بیٹی ایشا ملک جو اب سولہ سال کی ہیں اور مستقبل میں سرجن بننا چاہتی ہیں، کہتی ہیں کہ ’’میری ماں یہ کبھی نہیں بھولیں کہ وہ پاکستان سے امریکہ آئی تھیں‘‘۔
ایشا ملک کہتی ہیں کہ ’’میری ماں نے میری تربیت بہت روایتی طریقے سے کی ہے۔ میں انگریزی کے علاوہ پشتو اور اردو بھی بول سکتی ہوں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ میں پاکستان کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں، اگرچہ میں کبھی پاکستان نہیں گئی ہوں‘‘۔
روزینہ ملک امریکہ میں رہنے والی ایسی سنگل خواتین میں سے ایک ہیں جو سنگل مدرز کہلاتی ہیں۔ امریکہ میں اس وقت سنگل پیرنٹس میں تراسی فیصد خواتین ہیں۔ مگر ان میں سے پینتالیس فیصد ایسی ہیں جو روزینہ ملک کی طرح طلاق یافتہ ہیں اور اکیلے اپنے بچوں کو پالتی ہیں۔