گزشتہ چند روز سے 17 ویں صدی کی عظیم مغل یادگار تاج محل کے حوالے سے بھارت میں ایک تنازعہ جاری ہے جب بھارتی ریاست اُتر پردیش کی طرف سے جاری ہونے والے 36 صفحات پر مشتمل سیاحتی کتابچے میں تاج محل کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔
حزبِ مخالف کی جماعتوں نے بی جے پی کی ریاستی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے جان بوجھ کر تاج محل کو نظر انداز کیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی طرف سے گزشتہ جون میں دئے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ادتیاناتھ نے کہا تھا کہ ’’بھارتی ثقافت کی ترجمانی تاج محل نہیں بلکہ رامائن اور گیتا کرتی ہیں‘‘۔
تاہم، ریاست کی وزیر ثقافت، ریتا بہوگونا جوشی نے کہا ہے کہ یہ تنازعہ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے، کیونکہ سیاحتی کتابچے میں توجہ صرف نئے سیاحتی منصوبوں پر دی گئی تھی، جب کہ تاج محل ہمارے ثقافتی ورثے کا اہم حصہ ہے۔
اُتر پردیش کے سیاحتی کتابچے میں نسبتاً کم معروف ہندو مقامات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے، جن میں چتراکوٹ، ورناسی، ایودھیہ اور مرزاپور شامل ہیں۔ اس کا جواز پیش کرتے ہوئے اُتر پردیش کی وزیر ثقافت نے کہا ہے کہ ایسا 2019 میں ہونے والے مذہبی تہوار ’کمبھ میلے‘ کی وجہ سے کیا گیا۔ ریاستی حکومت کو توقع ہے کہ اس بار کمبھ میلے کے موقع پر 14 کروڑ لوگ ریاست میں آئیں گے اور ریاست اتنے زیادہ سیاحوں کی موجودگی سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔
تاہم، ناقدین کہتے ہیں کہ ریاستی حکومت اصل ثقافتی ورثے کو نظر انداز کرتے ہوئے مذہبی سیاحت کو ضرورت سے زیادہ ترجیح دے رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، سال 2016ء میں ایک کروڑ تین لاکھ سے زائد سیاح تاج محل کو دیکھنے آئے۔