شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا سیلاب یورپ سے ہوتا ہوا امریکہ تک پہنچا ہے، اور ان کی دیکھ بھال عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ تاہم، امریکہ پہنچنے والے ان 18 ہزار شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لئے امریکی مسلمان بھی کمر بستہ ہوگئے ہیں؛ اور انھیں نئے معاشرے میں مفید شہری بنانے کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کے فلاحی ادارے، ‘اکنا ریلیف‘ نے ان پناہ گزینوں کی بحالی کے لئے ملک بھر میں 11 ’ریفوجی ریسورس سنٹر‘ قائم کئے ہیں، جہاں انھیں مختلف شعبوں کی ہنرمندی اور انگریزی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے۔
امریکہ پہچنے والے ان شامی پناہ گزینوں کےلئے رہائش کا انتظام سرکاری ادارے کی نگرانی میں کیا جاتا ہے۔ تاہم، ان گھروں میں فرنیچر اور کچن کا سامان فراہم کرنا ’اکنا ریلیف‘ کی ذمہ داری ہے، جبکہ ان کے رضاکار آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لئے کھانا پکاتے ہیں۔ انھیں ٹیبل پر سجا کر پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ان پناہ گزینوں میں سے تقریباً 400 عورتوں، بچوں اور مردوں کو گزشتہ دنوں بالٹی مور میں منعقدہ ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ‘ کے سالانہ کنونشن میں مدعو کیا گیا۔
کنونشن میں کوئی 25ہزار امریکی مسلمان شریک تھے، جن سے ان کا تعارف کرایا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح کمیونٹی ان کی مدد کر رہی ہے۔ ان پناہ گزینوں میں شامل بچے اور بڑے سب ہی پناہ دینے پر امریکی عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ ساتھ ہی، ان کی خواہش تھی کہ ان کے ملک میں امن قائم ہو اور وہ واپس اپنے وطن جا سکیں۔
اس موقعے پر، ’اکنا ریلیف‘ ان ’ریفوجی ریسورس سینٹر‘ کی ڈائریکٹر، حنا حلیبی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ذمہ داری ان شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال اور ان کی بحالی ہے۔ ان کے رضاکار گھر میں فرنیچر ڈالتے ہیں، فرج کو کھانے پینے کی اشیا سے بھرتے ہیں اور کچن کے لئے راشن فراہم کرتے ہیں؛ جبکہ ان کی رضاکار خواتین گھر میں کھانا تیار کرتی ہیں۔ اسے باضابطہ ٹیبل پر سجا کر پھولوں کے گلدستے کے ساتھ اس گھر پر پناہ گزینوں کا استقبال کرتی ہیں۔
حنا حلیبی کا کہنا تھا کہ ان پناہ گزینوں کا سب سے بڑا مسئلہ زبان ہے۔ انگریزی سے ناواقفیت کے باعث ملازمتوں کے حصول میں انھیں دشواری پیش آتی ہے۔ اس لئے ’ریفوجی ریسورس سنٹر‘ میں ان کے لئے انگریزی زبان سیکھانے کے علاوہ کمپیوٹر ٹرینگ بھی دی جاتی ہے، جس کے بعد، ملازمتوں کے حصول کے لئے کونسلنگ کی جاتی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، امریکہ پہچنے والے اٹھارہ ہزار سے زائد ان پناہ گزینوں میں سے اب تک 25 فیصد کے قریب اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان پناہ گزینوں کے ’فوڈ اسٹمپ‘ نہیں بن جاتے، ان کے ریفوجی سنٹرز سے انھیں مکمل راشن فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی ہے۔
’اکنا ریلف‘ کے اسٹنٹ ڈائریکٹر، عبدالروف نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ پناہ گزین ہنرمند اور محنت کش ہیں۔ انھیں جدید ہنر اور انگریزی زبان سیکھانے کے بعد ان کو مزید امداد کی ضرورت نہیں رہتی۔
انھوں نے ’اکنا کنونشن‘ میں مدعو کرنے کا مقصد بتایا کہ 25 ہزار شرکا کو ان کی امدادی سرگرمیوں میں شامل کرنا تھا۔ کنونشن میں شریک مسلمان امریکیوں نے ان پناہ گزینوں کا بھرپور استقبال کیا اور ان کی بحالی میں شریک ہونے کے عزم کا اظہار کیا۔
سنہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ شامی دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ان کی غالب تعداد ترکی، لبنان، اردن اور عراق میں ہے۔ لیکن 9 لاکھ کے قریب یورپ، 40 ہزار کے قریب کنیڈا اور 18 ہزار سے زائد امریکہ میں پناہ گزین ہیں، جن کی دیکھ بھال عالمی برداری کے لئے ایک چیلنج ہے۔