شام میں امریکی اتحاد میں قائم اتحادی فورسز نے کہا ہے کہ جنگ سے متاثرہ علاقوں سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے مطابق محکمہ دفاع کے عہدے داروں نے شام سے امریکی فوجی دستوں کی وطن واپسی شروع ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
شام میں امریکی فوجی اتحاد کے ترجمان کرنل شان ریان نے کہا ہے کہ فوجی واپسی کا عمل بڑے غور و خوص کے بعد شروع کیا گیا ہے۔
فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کی بنا پر انخلا کے نظام الاوقات، مقام اور فوجی نقل و حرکت کو خفیہ رکھا جائے گا۔
برطانیہ میں قائم شام سے متعلق انسانی حقوق کے نگران گروپ’ سیرین آبزرویٹری فار ہومین رائٹس ‘ نے شام میں اپنے نمائندوں کے حوالے سے کہا ہے کہ فوجی دستوں کی واپسی کا عمل جمعرات کی رات سے شروع ہوا اور تقریباً 10 بکتربند گاڑیوں اور کئی ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلے کو شام سے عراق کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
شام کے جنگ زدہ علاقے سے فوجوں کی واپسی کے صدر ٹرمپ کے فیصلے نے سب کو حیران کر دیا اور امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اس فیصلے کے ردعمل میں اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام سے امریکی فوجوں کی فوری اور جلد واپسی پر کئی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس عمل سے داعش کے خلاف کارروائی متاثر ہو سکتی ہے اور اس خلا کر بھرنے کے لیے دوسری قوتوں کے درمیان پرتشدد کھینچا تانی جنم لے سکتی ہے۔
تاہم امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ داعش کی شکست تک شام کے شمال مشرقی حصوں سے فوجیں واپس نہیں بلائی جائیں گی۔ اس علاقے میں امریکی فورسز داعش سے لڑنے والے کرد عسکریت پسندوں کی مدد کر رہی ہیں۔