امریکہ نے شام سے اپنی فورسز نکالنے کا ایک منصوبہ ترتیب دے دیا ہے۔ لیکن یہ وہ نہیں جس کے متعلق میڈیا پر بہت بات کی جاتی رہی ہے کہ شام سے تمام امریکی فوجیوں کی واپسی پر یہ امکان ظاہر کیا گیا تھاکہ داعش کے خلاف جنگ لڑنے والے تمام فوجی واپس نہیں بھیجے جائیں گے۔
پیر کے روز پینٹاگون کے ترجمان کمانڈر شان رابرٹسن نے کہا ہے کہ اب انخلا پر عمل ہو رہا ہے۔ اس کا طریقہ کار حالات کی بنیاد پر ہے اور انخلا کا تعلق کسی خاص وقت سے نہیں ہے۔
رابرٹسن نے کہا کہ پنٹاگان اس بارے کے میں سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے کسی مخصوص چیز پر بات نہیں کرے گا، لیکن موسم سمیت بہت سے عوامل اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ فوجی کتنی جلد اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنٹاگان وقتاً فوقتاً شام سے فوجی سازوسامان کی واپسی کے متعلق اپ ڈیٹ فراہم کرے گا۔
منظور شدہ فوجی انخلا کے طریقہ کار کا ذکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ٹویٹ کے چند گھنٹوں کے بعد سامنے آیا۔ جس میں انہوں نے پچھلے مہینے فوری طور پر شام سے فورسز کی واپسی کا کہا تھا۔ اس فیصلے کے چند دن کے بعد سابق وزیر دفاع نے استیفی دے دیا تھا۔
ٹرمپ نے 19 دسمبر کو ٹوئیٹر پر اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا تھا۔ کہ ہمارے لڑکے اور نوجوان خواتین، ہمارے لوگ، وہ سب واپس آ رہے ہیں اور وہ ابھی واپس آ رہے ہیں۔