رسائی کے لنکس

قطب شمالی کے کئی حصوں میں فلوریڈا سے زیادہ گرمی


سائیبریا کے جنوبی حصے میں واقع ایک نیشنل پارک کے درختوں پر ایک روسی ہیلی کاپٹر پانی کا سپرے کر رہا ہے۔ 10 جولائی 2020
سائیبریا کے جنوبی حصے میں واقع ایک نیشنل پارک کے درختوں پر ایک روسی ہیلی کاپٹر پانی کا سپرے کر رہا ہے۔ 10 جولائی 2020

سائنس دانوں نے روس کی سرحد کے ساتھ واقع سائبیریا کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور منجمد شمالی میں تیزی سے پگھلتی ہوئی برف کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کی واضح علامتیں ہیں۔

سائبیریا اپنے شدید اور تکلیف دہ سرد موسم کی بنا پر شہرت رکھتا ہے۔ لیکن ان دنوں حیرت انگیز طور پر اسے موسم گرما کی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ مہینے 20 جون کو سائبیریا میں واقع روسی قصبے ورخایانسک میں درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا، جو 100 اعشاریہ 4 ڈگری فارن ہائیٹ کے مساوی ہے۔

موسمیات کے عالمی ادارے نے اس ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سائیبریا کے کچھ علاقوں میں ان دنوں امریکی ریاست فلوریڈا اور کیلی فورنیا سے زیادہ گرمی پڑ رہی ہے اور وہاں کا درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔ فلوریڈا اور کیلی فورنیا میں گرمیوں کا موسم خاصا شدید ہوتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ غیر معمولی طور پر بلند درجہ حرارت اور گرمی کی طویل لہر آرکٹک کے کئی علاقوں میں جنگلات میں آگ بھڑک اٹھنے کا سبب بن رہی ہے، جس سے اس قطبی علاقے میں برف کے پگھلاؤ میں تیزی آ رہی ہے اور برف کی تہہ سمٹ رہی ہے۔

موسمیات کے عالمی ادارے کی ترجمان کلیئر نولس نے کہا ہے کہ سائیبریا باقی ماندہ دنیا کی اوسط کے مقابلے میں دوگنی رفتار سے گرم ہو رہا ہے جس کا وہاں کی مقامی آبادیوں اور قدرتی ماحولیاتی نظام پر نمایاں اثر پڑ رہا ہے۔

نولس کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ آرکٹک میں ہوتا ہے وہ وہاں ٹہرتا نہیں ہے۔ وہاں ہونے والی تبدیلی دنیا کے مختلف حصوں کے موسموں کو متاثر کرتی ہے جہاں کروڑوں لوگ رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے ہفتے وہاں کے ایک مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت ہم وہاں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ ممکن نہیں کہ اس کے اثرات آب و ہوا کی تبدیلی پر نہ پڑیں۔ سائیبریا میں آنے والے گرمی کی اس لہر کے آب و ہوا کی تبدیلی پر واضح اثرات مرتب ہوں گے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اس سال جنوری سے شمالی قطبی دائرے کے اندر جمع ہونے والی کاربن گیسوں کی مقدار گزشتہ 18 برسوں کی سب سے زیادہ مقدار ہے، جب سے وہاں فضا میں موجود کاربن گیسوں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برف پگھلنے اور زیر سطح منجمد پانیوں کے پگھلنے سے بڑ ی مقدار میں میتھین گیس خارج ہوتی ہے، جس کا شمار گرین ہاؤس گیسوں میں شامل ایک طاقت ور گیس کے طور پر کیا جاتا ہے۔

نولس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے پورے علاقے کے قدرتی ماحولیاتی نظام اور ڈھانچے پر نمایاں اثرات پڑ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طبعیات کے قانون کے مطابق، ان اثرات کو پلٹنا بہت ہی زیادہ مشکل ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے کرہ فضائی میں اس وقت جس قدر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جمع ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری آنے والی کئی نسلیں مسلسل بلند درجہ حرارت کا مشاہدہ کرتی رہیں گی، کیونکہ کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی عمر طویل ہوتی ہے اور وہ بہت سے عشروں تک اپنی موجودگی قائم رکھ سکتی ہے۔

سائنسی جریدے نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قطبی علاقے کی ایک ممتاز علامت برفانی ریچھ کی نسل آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث اس صدی کے آخر تک دنیا سے ختم ہو جائے گی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بات صرف برفانی ریچھ تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ 2100 شروع ہونے تک آرکٹک میں حیات کی اور بھی کئی اقسام نیست و نابود ہو جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG