امریکہ کی عدالت عظمیٰ نے جمعرات کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے منظر عام پر لانے کیلئےمین ہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے مطالبے کو تو تسلیم کیا ہے؛ تاہم ایک الگ مقدمے میں جس میں کانگریس نے صدر کا مالیاتی ریکارڈ طلب کیا تھا، عدالت نےبیشتر ریکارڈ تک کانگریس کی رسائی فی الحال روک دی ہے۔
صدر ٹرمپ کیلئے دو مقدمات پر فیصلے کم مدتی فتح بھی ہیں اور شکست بھی، کیونکہ وہ گزشتہ دو برس سے اپنے مالیاتی ریکارڈ کو منظر عام پر لانے سے رکے ہوئے ہیں۔
تاہم، مین ہٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی والے مقدمے میں سپریم کورٹ کے ججوں نے صدر ٹرمپ کےوکیل اور محکمہ انصاف کے اِن دلائل کو مسترد کر دیا کہ جب تک صدر اپنے منصب پر فائز ہیں، ان کے خلاف تحقیقات نہیں ہو سکتی یا استغاثہ کو ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے عمومی حالات کی بجائے غیر معمولی حالات ظاہر کرنا ہونگے۔ ایک گرینڈ جیوری نے صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے طلب کئے تھے۔
چونکہ گرینڈ جیوری کی تحقیقات خفیہ ہیں، اس لئے اس فیصلے سے ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ کے مالیاتی ریکارڈ جلد منظر عام پر نہیں آ سکیں گے۔
کانگریس کی جانب سے ریکارڈ کی طلبی والے مقدمے میں، عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ماتحت عدالت نے مقدمے میں دی گئی تقسیم اختیارات کی دلیل پر پوری طرح سے غور نہیں کیا۔ اس لئے کانگریس فی الحال ریکارڈ کو پوری طرح سے نہیں دیکھ سکتی۔
سپریم کورٹ کیلئے صدر ٹرمپ کے تعینات کردہ دو ججوں جسٹس نیل گورسچ اور جسٹس بریٹ کیوانوگ نےبھی دونوں مقدمات میں چیف جسٹس جان رابرٹس اور چار لبرل خیالات کے حامی ججوں کے موقف سے اتفاق کیا۔ دونوں فیصلے چیف جسٹس رابرٹس نے تحریر کیے۔
اس فیصلے سے دونوں مقدمات اب دوبارہ ماتحت عدالتوں میں واپس بھیج دئے گئے ہیں۔
کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے ایک مقدمے میں اس سال مئی میں ٹیلیفون پر شنوائی ہوئی تھی۔