رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: مونال ریسٹورنٹ سمیت نیشنل پارک میں قائم تمام ہوٹل بند کرنے کا حکم


  • اسلام آباد کی مارگلہ ہلز میں نیشنل پارک کی حدود میں قائم ریستوران بند کرنے کا حکم
  • مونال ریسٹورنٹ نے تین ماہ میں رضاکارانہ طور پر ریستوران بند کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔
  • اگر آپ رضاکارانہ طور پر منتقل نہیں کریں گے تو ہم سیل کرنے کا حکم دے دیں گے: چیف جستس قاضی فائز عیسیٰ
  • عدالت نے سی ڈی اے کی طرف سے نیشنل پارک کے حوالے سے رپورٹ مسترد کردی۔

اسلام آباد -- سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس کو دی گئی تمام لیزیں کالعدم قرار دیتے ہوئے نیشنل پارک پیرسوہاوہ روڈ پر واقع تمام ریسٹورنٹس تین ماہ میں منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منگل کو نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کی جس دوران مونال ریسٹورنٹ نے رضاکارانہ طور پر تین ماہ میں ریسٹورنٹ منتقل کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں کب تک ریسٹورنٹ منتقل کر سکتے ہیں؟ اگر آپ رضاکارانہ طور پر منتقل نہیں کریں گے تو ہم سیل کرنے کا حکم دے دیں گے۔

وکیل مونال ریسٹورنٹ نے استدعا کی کہ ہمیں چار ماہ کا وقت دے دیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تین ماہ کا وقت دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد نیشنل پارک کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔

سپریم کورٹ نے نیشنل پارک ایریا میں دیگر تمام ریسٹورنٹس کو بھی تین ماہ میں منتقل ہونے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے کیس کا فوکس صرف نیشنل پارک کی حد تک ہے۔

عدالت نے نیشنل پارک پیر سوہاوہ روڈ پر واقع تمام ریسٹورنٹس تین ماہ میں منتقل کرنے کی ہدایت کر دی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس کو دی گئی تمام لیزیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمیاں بند کر دیں۔ عدالتی کارروائی کا تحریری حکم بعد میں جاری کریں گے۔

سماعت میں کیا ہوا؟

اس سے قبل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے کو فوری طلب کرلیا۔

عدالت نے سی ڈی اے کی طرف سے نیشنل پارک کے حوالے سے رپورٹ مسترد کر دی اور کہا کہ کیا سی ڈی اے کے اعلی افسران کو انگریزی کی کلاسز کرانا پڑے گی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے سی ڈی اے سے مونال کے ساتھ دیگر ریسٹورنٹس کی تفصیل مانگی تھی۔ اس پر سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ ہم نے مارگلہ نیشنل پارک میں تمام تعمیرات کی تفصیلات پر رپورٹ دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے کی رپورٹ میں سپورٹس کلب پاک چائنا سینٹر بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سی ڈی اے نے آرٹ کونسل نیشنل مانومنٹ کا نام بھی شامل کر دیا ہے۔ یہ سی ڈی اے کی ایمانداری ہے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کی عمارت بھی نیشنل پارک میں آتی ہے. اس پر سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ مجھے اس سوال کے جواب کے لیے نقشہ دیکھنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے سی ڈی اے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو معلوم ہے کہ مونال کے ساتھ مزید کتنے ریسٹورنٹس ہیں، لیکن نہیں معلوم تو سی ڈی اے کو معلوم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا سی ڈی اے کا اپنا دفتر بھی نیشنل پارک میں ہے، اگر ایسا ہے تو پھر سی ڈی اے کا آفس بھی گرانے کا حکم دے دیں گے۔

سماعت کے دوران مارگلہ کی پہاڑیوں پر آگ لگنے کے واقعات بھی زیر بحث آئے اور چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اب تک کتنی مرتبہ مارگلہ کے پہاڑوں پر آگ لگ چکی ہے؟ جس پر چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا نے کہا کہ اس سیزن میں 21 مرتبہ مارگلہ کے پہاڑوں پر آگ لگی۔

بینچ میں موجود جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ گزشتہ رات بھی مارگلہ کی پہاڑوں پر رات گئے تک آگ لگی رہی۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ کیا مارگلہ کے پہاڑوں پر سی ڈی اے والے خود آگ لگاتے ہیں جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ کچھ کالی بھیڑیں بھی موجود ہیں۔

محمد علی رندھاوا نے کہا کہ مون سون کے سیزن میں مارگلہ کے پہاڑوں پر نئے درخت لگائیں گے۔

عدالت نے آگ بجھانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پوچھا کہ آگ بجھانے کے لیے ہیلی کاپٹر کہاں سے آتے ہیں؟ اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد این ڈی ایم اے سے ہیلی کاپٹر لیے گئے تھے۔

مونال ریسٹورنٹ کس کی زمین پر بنا ہے؟

مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں پیرسوہاوہ کے مقام پر سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں قائم ہونے والا یہ ریسٹورنٹ ایک عرصہ سے متنازع ہے اور سال 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد کی انتظامیہ کو مونال ریسٹورنٹ سیل کرنے اور نیوی گولف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا لیکن بعد ازاں عدالت نے اس پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔

مارگلہ ہلز کو نیشنل پارک قرار دیا گیا ہے اور اس کے رولز کے مطابق یہاں کوئی بھی کمرشل سرگرمی نہیں ہو سکتی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ اراضی نیشنل پارک کا حصہ ہے جسے وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیشنل پارک کے حوالے سے متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں جنہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے مارگلہ ہلز تجاوزات کیس کا نام دیا گیا تھا۔

فوج کی جانب سے وزارتِ دفاع کا مؤقف تھا کہ انہیں 1910 میں یہ زمین گھوڑوں کی خوراک اور گھاس کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔ عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1962 کے آرڈیننس اور اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے بعد اس علاقے کی تمام زمین اسلام آباد کی انتظامیہ کو دی جا چکی ہے۔ لہٰذا آٹھ ہزار ایکڑ زمین فوج کو نہیں دی جا سکتی۔

اس سے قبل مونال ریسٹورنٹ انتظامیہ پاکستان فوج کے ملٹری ڈائریکٹوریٹ اور سی ڈی اے انتظامیہ کو لیز کی مدد میں فیس ادا کر رہی تھی۔

اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ کی انتظامیہ اور سی ڈی اے کے درمیان لیز کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔ عدالت نے 30 ستمبر 2019 کو مونال ریسٹورنٹ اور ملٹری اسٹیٹ افسر کے تحت کام کرنے والے ملٹری ونگ ریماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ (آر ایف وی ڈی) کے درمیان ایک معاہدے کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG