|
نئی دہلی — بھارت کی سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے انہدام پر عدالتی پابندی کے باوجود ریاست اترپردیش کے علاقے کشی نگر میں ایک مسجد کے انہدام پر اتر پردیش کی انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیاہے۔
سپریم کورٹ نے یہ نوٹس 13 نومبر 2024 کے اس عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر جاری کیا ہے جس میں عبادت گاہوں کے سروے اور انہدام پر ملک گیر سطح پر پابندی عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ پیشگی نوٹس کے بغیر انہدامی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس بی آر گوئی اور اے جی مسیح کے بینچ نے ضلعی انتظامیہ کو اگلی سماعت تک کسی بھی قسم کی انہدامی کارروائی سے روک دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں درخواست گزار کی اس بات کو نوٹ کیا کہ مذکورہ عمارت ایک نجی زمین پر واقع ہے اور میونسپل انتظامیہ نے 1999 میں اس کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔اس اجازت کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جسے کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ مسجد کا انہدام عدالت کی سنگین توہین ہے۔ لہٰذا انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے جس کا جواب دو ہفتے میں دینا ہو گا۔
عدالت اس معاملے پر اب 18 مارچ کو سماعت کرے گی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے درخواست گزار عظمت النسا کی جانب سےعدالت کو بتایا کہ 'سب ڈویژنل مجسٹریٹ' (ایس ڈی ایم) نے دسمبر 2024 میں دورہ کرکے مسجد کا جائزہ لیا تھا۔
واضح رہے کہ درخواست گزار عظمت النسا کی جانب سے ہی مسجد کی تعمیر کے لیے اراضی وقف کی گئی تھی۔
اُن کے مطابق جانچ کے دوران یہ سامنے آیا تھا کہ مسجد کی تعمیر منظور شدہ نقشے کے مطابق ہے۔ البتہ جو حصہ نقشے کے مطابق نہیں تھا اسے درخواست گزار نے خود ہی منہدم کر دیا تھا۔
درخواست گزار کے مطابق انتظامیہ نے نوفروری کو کشی نگر کے مقام ہاٹا میں واقع مدنی مسجد کے بیرونی حصے کو منہدم کر دیا۔ان کے بقول انتظامیہ نے انہدام سے قبل انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا۔
درخواست گزار نے انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کرنے، صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے اور انہدام کے عوض معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
وکیل حذیفہ احمدی کے مطابق جس ایس ڈی ایم نے مسجد کے حق میں رپورٹ دی تھی ان کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
ان کے بقول جب عدالت نے تعمیر کی اجازت کو کالعدم کرنے سے انکار کیا تو ایک مقامی سیاسی رہنما نے شکایت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس جگہ ایشیا کی سب سے بڑی مسجد تعمیر ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ کشی نگر کی ضلعی انتظامیہ نے نو فروری کو بھاری مشینری کے ذریعے انہدامی کارروائی شروع کی۔
اس دوران پورے علاقے کو سیل کیا گیا جب کہ 10 تھانوں کی پولیس بھی تعینات کی گئی۔
بعد ازاں انتظامیہ نے بتایا کہ غیر قانونی عمارت کو پُر امن طریقے سے منہدم کردیا گیا۔
مسجد کے بیرونی حصے کے انہدام کی وجہ سے عمارت کی دیواروں میں دراڑ پڑ گئی ہے۔
مسجد کے متولی حاجی حامد خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ یکطرفہ کارروائی جھوٹ کی بنیاد پر کی گئی۔ مسجد رجسٹرڈ زمین پر بنی ہے اور اس کی تعمیر میونسپلٹی کی جانب سے منظور شدہ نقشے کے مطابق کی گئی ہے۔
مسجد انتظامیہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں انہدام سے قبل کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ انتظامیہ کے اہل کار غیر متوقع طور پر جے سی بی مشینوں کے ساتھ آئے۔ مسجد کی دیوار پر ایک نوٹس چسپاں کیا، اس کی تصویر لی اور پھر اسے ہٹا دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہدام سے قبل مسجد کےسی سی ٹی وی کیمروں کے تار کاٹ دیے گئے۔
رپورٹس کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سن 1992 سے 2000 کے درمیان ہوئی تھی۔
اس کیس کے ایک اور وکیل ایم آر شمشاد نے انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے امید ہے کہ اس سے ایک مثبت پیغام جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کم از کم 10 اہل کاروں کو ملزم بنایا گیا ہے جن میں میونسپل کمشنر، چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ایس پی اور ایس ڈی ایم شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ توہین عدالت کے قانون کے مطابق عدالت کے حکم کی خلاف ورزی پر الزامات طے کیے جاتے ہیں۔ ملزمان کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور پھر سزا سنائی جاتی ہے۔ ان کے بقول سزا معاملے کی سنگینی کے اعتبار سے سنائی جاتی ہے۔
ان کے مطابق ایسے معاملات میں ہفتہ، 10، 15 دن یا ایک مہینے کی علامتی سزا ہوتی ہے۔ اس کا مقصد صرف سزا دینا ہی نہیں بلکہ ایک پیغام دینا بھی ہوتا ہے کہ عدالت نے جو حکم جاری کیا تھا اس کے تقدس کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔
ایم آر شمشاد کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملہ یہ ہے کہ عمارت توڑی گئی ہے۔ اگر انتظامیہ عمارت کی تعمیر کرتی ہے تو عدالت ملزمان کو معاف کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو توہینِ عدالت کا جرم تو اپنی جگہ پر باقی رہے گا۔
ان کے بقول اس معاملے میں پہلے الزامات طے کیے جائیں گے۔ پھر بحث ہوگی اور پھر عدالت طے کرے گی کہ مسجد کا انہدام غلط تھا یا نہیں۔ اگر غلط ثابت ہوا توعدالت سزا سنائے گی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبد الرحمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس سے قبل بھی توہین عدالت کے واقعات ہوئے ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس سے قبل ایسے کئی کیسز میں لوگوں کو جیل بھیجا ہے۔ لیکن اُن کے بقول ایسا اسی وقت ہو تا ہے کہ کسی انفرادی شخص کا جرم ثابت ہو جائے۔ اگر ایسے کسی معاملے میں سیاست کا دخل ہوتا ہے تو پھر معاملہ بغیر کسی نتیجے پرپہنچے ختم ہو جاتا ہے۔
بعض اپوزیشن جماعتوں نے مدنی مسجد کے انہدام کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اتر پردیش کانگریس پارٹی کے صدر اجے رائے نے انہدام کے خلاف ریاستی گورنر آنندی بین پٹیل کو ایک خط ارسال کیا ہے۔
انہوں نے لکھنؤ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریاستی گورنر سے اپیل کی کہ وہ اس واقعے کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے وضاحت طلب کریں اور مرکز کو باخبر بھی کریں۔
سماجودای پارٹی نے بھی انہدام کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پارٹی ترجمان عبد الحفیظ گاندھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص آئین و عدالت سے بالاتر نہیں ہے۔ جب عدالت نے انہدام پر پابندی عائد کی تھی تو پھرانتظامیہ نے مسجد کو کیوں منہدم کیا۔
'تجاوزات کی اجازت نہیں دیں گے'
حکمرا ں جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' (بی جے پی) کے اترپردیش کے ترجمان راکیش ترپاٹھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت سپریم کورٹ کے نوٹس کا جواب دے گی اور اپنا مؤقف رکھے گی۔
ان کے بقول انہدامی کارروائیوں پر حکم امتناع ختم ہونے کے بعد انتظامیہ نے کارروائی کی ہے۔ ریاستی حکومت سپریم کورٹ اور تمام عدالتوں کے احکامات کی پابندی کا عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ایسی کسی بھی کارروائی کے حق میں نہیں ہے جس سے توہین عدالت ہوتی ہو۔ لیکن وہ کسی کو بھی تجاوزات کی آزادی نہیں دے گی۔
وائس آف امریکہ نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سابق مشیر اور کشی نگر سے متصل دیوریا سے بی جے پی کے رکن اسمبلی شلبھ منی ترپاٹھی سے حکومت کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے۔ وہ اجلاس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ہی ردعمل دے سکیں گے۔
فورم