رسائی کے لنکس

شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت


نواز شریف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے لیے آرہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
نواز شریف اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے لیے آرہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ٹرائل اب تک مکمل کیوں نہیں ہوا؟ آپ نے پہلے دو ماہ میں ٹرائل مکمل ہونے کا کہا تھا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایک ریفرنس مکمل ہوچکا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں مزید ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کو ٹرائل کی مدت میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے جب کہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ٹرائل اب تک مکمل کیوں نہیں ہوا؟ آپ نے پہلے دو ماہ میں ٹرائل مکمل ہونے کا کہا تھا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایک ریفرنس مکمل ہوچکا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا مکمل ہونے والے کیس کا فیصلہ ہوسکتا ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے آگاہ کیا کہ ابھی ملزمان کے 342 کے بیان ہونے ہیں۔ لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس نمبر تین میں تمام گواہان کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں۔ دس مئی کو سماعت ہے لیکن 342 کا بیان ریکارڈ نہیں ہوگا۔ لیکن نیب 342 کے بیان کے لیے تیار ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ملزمان کے 342 کے بیان کب ریکارڈ ہونے ہیں؟ کیا لندن فلیٹس کے لیے آپ کو وقت کم اور دیگر ککے لیے زیادہ چاہیے؟ کس زبان میں آپ سے پوچھیں کہ کتنا مزید وقت لگے گا؟ لندن فلیٹس میں واجد ضیا پر جرح کتنے دن میں مکمل ہوئی؟

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لندن فلیٹس کے علاوہ باقی دو ریفرنسز میں بعض گواہان کے بیان ریکارڈ ہونا رہتے ہیں۔

نوازشریف کے وکیل نے تینوں ریفرنسز کا ٹرائل اکٹھا کرنے اور ٹرائل کی مدت میں تین ماہ اضافے کی استدعا کی تو اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ ٹرائل مکمل طور پر شفاف ہو۔ ٹرائل کورٹ کو بھی ہفتے اور اتوار کو سماعت کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ ایک ریفرنس پر پہلے فیصلہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا؟

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ خواجہ صاحب عدالت نے پہلے بھی مدت میں توسیع کی تھی۔ ضرورت پڑی تو دوبارہ بھی دیکھ لیں گے۔ آپ کو عدالت آنے سے کبھی نہیں روکا۔ کسی سے ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔ زبانی طور پر بھی ایسی بات نہیں کریں گے کہ ٹرائل متاثر ہو۔ کیا آپ دفاع میں گواہ اور شواہد پیش کریں گے؟ آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو مجبور نہیں کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف نیب ریفرنسز کے تحت ٹرائل کو مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا تھا جو 13 مارچ کو ختم ہوگیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج کی درخواست پر نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں دو ماہ کی توسیع کر دی تھی جو 13 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔

تیرہ مارچ کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدتِ ملازمت بھی پوری ہوگئی تھی جس میں دوسری مرتبہ تین سال کے لیے توسیع کردی گئی تھی۔

پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد عدالتی حکم پر نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، ہلز میٹل اسٹیبلشمنٹ اور لندن میں ایون فیلڈ فلیٹس سے متعلق تین ریفرنسز دائر کیے تھے۔

ان کے علاوہ سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر بھی ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ تاہم اکتوبر 2017ء سے اسحاق ڈار لندن میں مقیم ہیں اور اس ریفرنس کی سماعتوں سے غیر حاضر ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے انہیں اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔

ان ریفرنسز کے علاوہ نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف کئی ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے تھے جن کی سماعت احتساب عدالت اسلام آباد میں جاری ہیں۔

XS
SM
MD
LG