رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کا 'نئے پاکستان' پر اظہارِ برہمی؛ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا معافی نامہ قبول


سپریم کورٹ نے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔

عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان تک ان کی ناراضگی پہنچا دی جائے۔

پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا، "کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ آگئے ہیں سارے مل کر نیا پاکستان بنانے۔"

عدالتِ عظمیٰ نے برہمی کے اظہار کے بعد ڈی پی او پاک پتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، سابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور احسن جمیل گجر کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے ازخود نوٹس نمٹا دیا۔

اس سے قبل پیر کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر مہر خالق داد لک کی رپورٹ پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب اس معاملے کو ہلکا لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہیں گے۔ اگر یہ وزیرِ اعلیٰ رہیں گے تو عدالت کے فیصلوں کے تابع رہیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو خیال نہیں عدالت میں آ کر غلطی تسلیم کرے، معافی مانگے، شرمساری دکھائے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں بہترین افسر پر ذاتی حملہ کیا۔ وزیراعلیٰ کون ہوتے ہیں ایسا جواب بھیجنے والے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعلٰی معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ معاملہ حساس تھا، اس لیے وزیراعلی نے ڈی پی او کو بلایا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ نے غیر متعلقہ شخص کے سامنے پولیس افسروں کو بلایا۔ کیا ڈی پی او رضوان گوندل پلید ہو گئے تھے جو اتنی جلدی تبدیل کر دیا؟ کیا وزیرِ اعلیٰ صادق اور امین ہیں؟ کل کو 62 ون ایف کے کیس میں یہ سوال بھی اٹھیں گے۔

چیف جسٹس نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے قریبی دوست احسن جمیل گجر کے بارے میں کہا کہ کیا پولیس افسران کے بارے میں احسن جمیل ایسی زبان استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ہے جو نیا پاکستان بنا رہی ہے؟

جسٹس ثاقب نثار نے ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرکے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے میری ناپسندیدگی کا اظہار کر دیں۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟ جب ہم 62 ون ایف کی انکوائری کرائیں گے تو نیا پاکستان بنے گا۔ کرامت کھوکھر کا معاملہ پی ٹی آئی ڈسپلنری کمیٹی کو بھیجا مگر کچھ نہیں ہوا۔

وکیل احسن بھون نے کہا کہ احسن جمیل کی طرف سے غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احسن جمیل گجر ہے کون؟ یہ کس کا خاندانی دوست ہے؟

وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ مانیکا خاندان کا دوست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خاور مانیکا خود جا کر بات نہیں کر سکتے تھے؟ ہم انکوائری کراتے ہیں، جو ریکارڈ لانا ہے لے آئیں۔ ہم قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کو قانون کے سامنے جھکنا ہو گا۔ اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی تحریری معافی جمع کرا دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انکوائری کرائیں گے اور جرح بھی ہو گی۔ کیا ہمیں جھوٹ نظر نہیں آتا؟ اس معاملہ کو ایسے نہیں چھوڑوں گا۔ یہ قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے۔

اس کے بعد عدالت نے تمام افراد کو معافی نامے دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے تمام افراد کے معافی نامے قبول کرتے ہوئے کیس نبٹادیا۔

واضح رہے کہ خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور ان کے سابق شوہر خاور مانیکا کے بچوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی پر پنجاب حکومت نے ضلع پاک پتن کے اس وقت کے پولیس سربراہ رضوان گوندل کا تبادلہ کیا تھا۔

تبادلے کے لیے سیاسی دباؤ ڈالے جانے کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کی تھی۔

لیکن اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اس وقت کے آئی جی پولیس پنجاب کلیم امام نے معاملے کے تمام کرداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کسی پر بھی ذمہ داری عائد نہیں کی تھی۔

سپریم کورٹ نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا اور پنجاب پولیس کے ایک اور افسر مہر خالق داد لک کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

مہر خالق داد لک نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے عدالت میں جمع کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈی پی او پاک پتن کے تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ڈی پی او کو سبق سکھانے کے لیے آئی جی پنجاب پر دباؤ تھا جب کہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں پولیس افسران کے ساتھ احسن جمیل گجر کا رویہ بھی تضحیک آمیز تھا۔

XS
SM
MD
LG