رسائی کے لنکس

نئے ٹیکسز اور مہنگا پیٹرول؛ پاکستان میں کون سا طبقہ زیادہ متاثر ہو گا؟


پاکستان کے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو اضافی محاصل جمع کرنے کے لیے اسمبلی میں منی بجٹ پیش کردیا ہے جس کے تحت موجودہ مالی سال کے آخری چار ماہ میں ریونیو اہداف پورا کرنے کے لیے مزید 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے کہ نئے ٹیکسز کےنفاذ سے غریب طبقے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ معاشی ماہرین اور تاجروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان نئے ٹیکسز سے معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقہ بھی شدید متاثر ہوگا۔ حکومتی وزرا کہتے ہیں کہ یہ فیصلے ملک کی معاشی بہتری کے لیے ناگریز ہیں۔

حکومت کی جانب سے ضمنی مالیاتی بل میں پیش کی گئی تجاویز میں مختلف اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فی صد کرنے، بینکوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے، سرکاری و نجی اجتماعات پر ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کرنے، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے، توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا شامل ہے۔

اس کے علاوہ بعض پرتعیش اشیا جن پر پہلے پابندی تھی اب ان کی اجازت دے کر 25 فی صد اضافی ٹیکس عائد کرنے جب کہ کتے اور بلی کی خوراک، مچھلی، جوتے، پھل، جوس، فرنیچر، گھریلو آلات وغیرہ سمیت 85 اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجاویز بھی شامل ہیں۔

اسی طرح سیگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اضافے سے صابن، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، موبائل فونز، الیکٹرانک آلات، جوسز، خوردنی تیل، شیونگ جیل، گاڑیوں کا سامان، میک اپ کا سامان، پرفیومز، ٹی وی، ایل ای ڈیز، بچوں کے کھلونے، بسکٹس، ہیئرکلرز اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

حکومت نے منی بجٹ کے ساتھ ہی آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرول کی قیمت میں 22 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے 20 پیسے اضافہ کردیا ہے۔ اس اضافے کے بعد پیٹرول 272 روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل 280 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔لائٹ ڈیزل کی قیمت 9 روپے 68 پیسے بڑھنے سے 196 روپے 68 پیسے جب کہ مٹی کا تیل 12 روپے 90 پیسے مہنگا ہونے سے 202 روپے 73 پیسے فی لیٹر ہوگیا ہے۔

اس کے علاوہ گیس اور مائع گیس کی قیمتوں میں تقریباً 113 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے۔

وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس مہنگائی کا اثر عام لوگوں پر نہیں پڑے گا کیوں کہ روز مرہ کی گھریلو اشیا پر ٹیکس اور عام آدمی پر ٹیکس نہیں لگائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے ضمنی بل کے ذریعے نئے ٹیکسز کو لاگو کرنے کی وجہ 2019 میں عمران خان حکومت کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو قرار دیا ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کے لیےیہ فیصلے کرنا ضروری ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور پھر روپے کی قدر میں کمی کے باعث حکومت تیل کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہوئی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے 59 فی صد پاکستانیوں پر اس کا اثر نہیں پڑے گا اور کم گیس خرچ کرنے والے صارفین کو اس اضافے سےمحفوظ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے مستقبل کے لیےیہ مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں جس سے آنے والے وقت میں معاشی بہتری ممکن ہوسکے گی۔

ادھر اے کے ڈی سیکیورٹیز میں معاشی تجزیہ کار فرید عالم کا خیال ہے کہ جی ایس ٹی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر اقدامات یقینی طور پر مہنگائی کو مزید بڑھانے کا باعث بنے گا اور اس سے کمپیوٹر اور اس سے متعلقہ اشیا بھی مہنگی ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی گزشتہ ماہ کے اختتام پر 27 فی صد سے تجاوز کرکے پانچ دہائیوں میں بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہنگائی کی اس لہرسے انتہائی غریب طبقے کے ساتھ متوسط طبقہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں افراط زر کی شرح تیزی سے بڑھی ہے۔

فرید عالم کے بقول مرکزی بینک اب شرح سود مزید بڑھائے گا اور صنعتی اور کاروباری پہیہ جو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے وہ مزید آہستہ ہوجائے گا۔اس کے نتیجے میں مزید لوگوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ منی بجٹ کی واحد اچھی بات یہ ہے کہ اس کی منظوری سے پاکستان آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے ایک قدم اور آگے چلا جائے گا۔

البتہ معاشی ماہر ڈاکٹر اجمل احمد سمجھتے ہیں کہ منی بجٹ سے معیشت کے صرف اندرونی شعبے ہی میں صورتِ حال کو کسی حد تک بہتر بنانے کی امید پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ بیرونی شعبہ بن چکا ہے جہاں پاکستان کو اس وقت ڈالر کی اشدضرورت ہے تاکہ ڈیفالٹ کے خطرے سے نکلا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئندہ چار ماہ میں تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر واپس کرنے ہیں جب کہ خزانے میں تین ارب ڈالر سے بھی کم رقم موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ اقدامات سے ملک میں مہنگائی کی شرح 27 سے بڑھ کر 33 فی صد جانے کا خدشہ ہے۔لیکن آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہونے سے امید ہے کہ ملک میں ڈالر کی آمد کا راستہ صاف ہوگا اور صورتِ حال میں بہتری پیدا ہوگی۔

تاہم فرید عالم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی مسائل کوئی نئے نہیں بلکہ ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور ان کا حل دیرپا پالیسیوں پر عمل درآمد، برآمدات بڑھانے اور اخراجات گھٹانے میں پوشیدہ ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG