رسائی کے لنکس

لداخ کو الگ ریاست بنانے کے مطالبے میں شدت، نئی دہلی میں دھرنا


بھارتی کشمیر کی قیادت نے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دلوانے کے لیے احتجاجی مہم تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جمعرات کو نئی دہلی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے لیہہ ایپکس باڈی (ایل اے بی) اور کرگل ڈیمو کریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں کی زمین، ثقافت اور ملازمتوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

بھارت میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے یعنی ملازمتوں کے تحفظ سمیت دیگر مراعات کی حمایت کرتی ہے، تاہم لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کے معاملے پر اس کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔

بی جے کے مقامی لیڈر بھی سیاسی اور سماجی جماعتوں کے اتحاد لیہہ ایپکس باڈی میں شامل ہیں۔ بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے گزشتہ دنوں حکومت کا یہ وعدہ دہرایا تھا کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسا علاقے میں اگلے عام انتخابات کے بعد ہی ہوگا۔ یہ انتخابات کب ہوں گے، انہوں نے یہ نہیں بتایا۔

بھارتی پارلیمان کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے چند ماہ پہلے اپنی ایک رپورٹ میں وفاقی وزارتِ داخلہ سے سفارش کی تھی کہ وہ لداخ کو آئین کے پانچویں یا چھٹے شیڈول میں شامل کرنے پر غور کرے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2011 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق لداخ میں قبائلی آبادی دو لاکھ 18 ہزار 355 ہے جو لداخ کی کل آبادی دو لاکھ 74ہزار 289 کا 80 فی صد ہے۔

کمیٹی نے لداخ کو پانچویں یا چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کی سفارش کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ لداخ کی قبائلی آبادی کی ترقیاتی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس لینڈ لاکڈ خطے کو خصوصی درجہ دیا جاسکتا ہے۔


چھٹا شیڈول لداخ کے لیے اہم کیوں ہے؟

ایل اے بی کے ایک لیڈراور سابق وزیر نوانگ رگزن جورا کا کہنا ہے کہ لداخ کے لیے چھٹا شیڈول سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

بھارتی آئین کی دفعہ 244 کے تحت 1949 میں بنائے گئے چھٹے شیڈول کا مقصدخود مختار ضلع ڈویژن جو خود مختار ضلع کونسلز کہلاتے ہیں قائم کرکے فطری علاقوں اور قبائلی گروپوں کی ثقافت اور روایات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

اس شیڈول کی بدولت بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں آسام، میزورام ، میگھالیہ اور تری پورہ کے فطری علاقوں اور قبائلی گروہوں کو خود مختاری حاصل ہے۔

رگزن جورا کا مزید کہنا تھا کہ "لداخ کے آئینی تحفظ کے لیے چھٹا شیڈول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پانچواں شیڈول (جو اراضی کی خرید و فروخت اور منتقلی کے سلسلے میں چند ضوابط مقرر کرتا ہے) لداخ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔

دہلی میں لداخیوں کا مظاہرہ

ایل اے بی اور کے ڈی اے نے بُدھ کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب واقع جنتر منتر کے مقام پر احتجاجی دھرنا بھی دیا تھا۔ اس موقعے پر ایک بڑا مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں طلبہ سمیت سینکڑوں لداخیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر مقررین نے اپنے جن بنیادی مطالبات پر زور دیا اُن میں لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینا، چھٹے شیڈول کے تحت آئینی ضمانتیں فراہم کرنا، تقرریوں کو بِلا تاخیر عمل میں لانا، مقامی آبادی کے لیے ملازمتوں میں تحفظ فراہم کرنا اور اس مقصد کے لیے ایک الگ پبلک سروس کمیشن کا قیام عمل میں لانا شامل تھے۔

کیا لداخ کے عوام واقعی ناخوش ہیں؟

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو بھارتی کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈکشمیر اور دوسرا یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔

لداخ کی سیاسی ، سماجی، مذہبی اور ثقافتی تنظیموں کے اتحادایل اے بی کا کہنا ہے کہ علاقے کو یونین ٹریٹری بنانے کے موقعے پر کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

سابق وزیر چیرنگ دورجے نے جواس فرنٹ کے صدر بھی رہ چکے ہیں کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لداخ سابقہ جموں و کشمیر ریاست کے ایک حصے کے طور پر زیادہ خوشحال تھا۔

انہوں نے کہا "لداخ کے لوگوں کے لیے اس کا جموں و کشمیر ریاست کا ایک حصہ ہونا زیادہ بہتر تھا۔ ہم یونین ٹریٹری انتظامیہ کے ماتحت ہونے سے زیادہ جموں و کشمیر میں آرام دہ محسوس کرتے تھے۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کچھ عرصہ پہلے وزیرِ مملکت نتیانند رائے کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی ۔اس کمیٹی کو اس خطے کے لوگوں کے لیے زمین اور ملازمتوں کا تحفظ یقینی بنانے کی ذمے داری سونپی گئی تھی۔

لیکن ایل اے ڈی اور کے ڈ ی اے ، دونوں نے اس کمیٹی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا اور کہاتھا کہ ان کا کوئی بھی ممبر اس کمیٹی سے مشاورت نہیں کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کمیٹی میں ایل اے ڈی اور کے ڈی اے کی طرف سے نامزد کئے گئے افراد کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

کرگل کے مسلمانوں اور لیہہ کی بدھ مت کمیونٹی میں اتحاد

کے ڈی اے کے ایک لیڈر سجاد کرگلی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا " ہم نے لداخ کو یونین ٹریٹری بنانے کے مطالبے کی مخالفت کی تھی اور جب نئی دہلی نے ہم پر یہ فیصلہ ٹھونسا تو ہم نے اس کو رد کیا تھا۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ہمیں خوشی ہے کہ اب لیہہ اور کرگل کی سیاسی اور سماجی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک آواز میں خطے کے لیے آئینی تحفظات اور اسے مکمل ریاست کا درجہ دینے کے مطالبات کیے ہیں۔"

سجاد کرگلی نے مزید کہا کہ"ہمیں امید ہے کی حکومت ہماری اس آواز کو سنے گی اور لداخ کے لوگوں کے مطالبات کو پورا کرے گی۔"

ایل اےبی اور کے ڈی اے، دونوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کے مطالبات پورے ہونے تک ان کی طرف سےشروع کی گئی ایجی ٹیشن جاری رہے گی۔

بُدھ کو نئی دہلی میں احتجاجی دھرنا دینے اور مظاہرہ کرنے سے پہلے انہوں نے جموں و کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں اور خود لیہہ اورکرگل شہروں میں بھی احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں ۔

واضح رہے کہ لیہہ میں بُدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت آباد ہے جب کہ کرگل کی کل آبادی کا تین چوتھائی حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

نئے سربراہِ انتظامیہ کی تقرری

اسی دوران لداخ کے لیفٹننٹ گورنر ایم کے ماتھر کو عہد ے سے ہٹا کر ان کی جگہ ایک سابق فوجی افسر بریگیڈیئر (ر) بی ڈی مشرا کو نئے لیفٹننٹ گورنر کے طور پر تعینات کردیا گیا ہے۔

لداخ کی مختلف تنظیموں کی جانب سے علاقے کو مکمل ریاست کا درجہ دینےاوردوسرے مطالبات کو لے کر ؛ دہلی چلو' کی کال دیے جانے کے فوراً بعد ماتھر کو فوری طور پرنئی دہلی طلب کرکے ان کی جگہ نئے لیفٹننٹ گورنر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔

جمعرات کو لداخ کے لیڈروں نے نئی دہلی میں منعقدہ نیوز کانفرنس کے دوران اس بات کی وضاحت کی تھی کہ وہ اپنے مطالبات اور اس خطے کو عوام کو درپیش مسائل کا حل بھارتی آئین کے اندر چاہتے ہیں اور اس کے لیے احتجاج ان کا جمہوری حق ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG