اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزامات پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا ہے اور اس معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کرکے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب اس معاملے پر تحقیقات کے لیے حکومت نے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن بنایا تھا جس نے 60 روز کے اندر اس معاملے پر تحقیقات کرنی تھیں۔ لیکن جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی طرف سے کمیشن کی سربراہی سے معذرت، مختلف بار کونسلوں اور ملک بھر میں وکلا کے دباؤ کے بعد اب اس معاملے پر ازخود نوٹس لے لیا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے اس معاملے پر فوری طور پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو چھ ججوں کے الزامات پر مبنی خط کا نوٹس لیتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی جس کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔
بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس منصور علی شاہ، یحییٰ خان آفریدی، جمال خان مندوخیل شامل ہیں جب کہ چیف جسٹس بینچ کے سربراہ ہیں۔
سات رکنی لارجر بینچ بدھ کو ساڑھے گیارہ بجے اس معاملے کی سماعت کرے گا۔
ازخود نوٹس لینے کے لیے معاملہ تین رکنی کمیٹی کے سامنے زیرِ غور آیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے ازخود نوٹس لینے کی منظوری دی۔
جسٹس تصدیق جیلانی کا خط
قبل ازیں جسٹس(ر) تصدق جیلانی نے وزیرِ اعظم شہبازشریف کو خط لکھ کر اس کمیشن کی سربراہی سے معذرت کی۔ اس سے پہلے جب حکومت کی قانونی ٹیم نے ان سے کمیشن کی سربراہی پر بات کی تھی تو انہوں نے اس پر اتفاق کر لیا تھا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کو لکھے جانے والے خط میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججوں نے خط سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل خود ایک آئینی ادارہ ہے۔ میرے لیے معاملے کی انکوائری کرنا عدالتی حدود کی خلاف ورزی ہو گی۔
جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن کے قواعد و ضوابط معاملے سے صحیح مطابقت نہیں رکھتے۔ ججوں نے خط میں ادارہ جاتی مشاورت کی بات کی تھی۔
گزشتہ ماہ 30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔
اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وزیرِ اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔
اس سے پہلے 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججوں کے کام میں مداخلت اور ججوں کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔
ازخود نوٹس اور وکلا کا خط
سپریم کورٹ نے جسٹس تصدیق جیلانی کی معذرت کے بعد ازخود نوٹس تو لے لیا۔ لیکن اس تمام معاملے میں ملک بھر کے وکلا اور مختلف بار کونسلز نے بھی اہم کردار ادا کیا اور اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے میں ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اتوار کو ملک بھر کے 300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا جس میں حکومتی کمیشن کے سربراہ جسٹس تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی بھی شامل تھے۔
ان کے ساتھ ساتھ سینئر وکلا سلمان اکرم راجہ، عبد المعیز جعفری، ایمان مزاری، زینب جنجوعہ شامل تھے۔
سپریم کورٹ کو لکھے جانے والے خط میں وکلا نے ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان کے جرات مندانہ اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ ہے۔ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے۔
خط میں مطالبہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے۔ مفادِ عامہ کی کارروائی کو عوام کے لیے براہِ راست نشر کیا جائے جب ججز کو منظم طریقے سے تھریٹ کیا جاتا ہے تو پورے نظامِ عدل پر اثر پڑتا ہے۔ اگر جج بغیر کسی خوف کے انصاف فراہمی میں آزاد نہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام اہمیت نہیں رکھتا۔
خط میں کہا گیا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب ایسے الزامات لگائے گئے بلکہ اس سے قبل جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے بھی ایسے الزامات لگائے تھے۔ فوری اور شفاف انکوائری میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
تحریکِ انصاف کا لارجر بینچ پر اعتراض
تحریکِ انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس میں سات رکنی بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ججوں کے خط کا معاملہ انتہائی اہم ہے جس پر سات رکنی بینچ قبول نہیں ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے اور از خود نوٹس کیس کی کارروائی ہر صورت میں براہِ راست نشر کی جائے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ایجنسیاں، ایگزیکٹو، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ججوں کے خط میں جواب دہ تھے۔ انکوائری کمیشن بنانے سے پہلے کابینہ نے فیصلہ سنا دیا۔ انکوائری کمیشن سے اپنی مرضی کا فیصلہ لیا جانا تھا۔ کابینہ میٹنگ میں اس خط کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا تھا۔
وکلا بھی فل کورٹ کی تشکیل کے حامی
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس پر وکلا برادری نے مجموعی طور پر مثبت ردِ عمل کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ اس عمل سے ججوں کے تحفظات دور ہو سکیں گے اور خفیہ اداروں کا عدلیہ میں مداخلت کو ختم کیا جاسکے گا۔
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے کہا کہ چیف جسٹس کا از خود نوٹس ایک مثبت پیش رفت ہے،.
ان کے بقول ملک بھر کے وکلا اور بار ایسویسی ایشنز کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ اس بارے میں نوٹس لے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب عدالت نے نوٹس لیا ہے لیکن بہتر ہے کہ اس بارے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے اور سپریم کورٹ کی طرف سے اجتماعی سوچ سامنے آئے۔