افغانستان کےمشرقی صوبہ ننگرہار میں اتوار کو ایک جنازے پر ہونے والے خودکش بم حملے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہو گئے۔
حکام کے مطابق خودکش بمبار نے ضلع حسکہ مینہ کے سابق حکومتی سربراہ کے جنازے میں خود کو دھماکے سے اڑایا۔
فوری طور پر کسی گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں جہاں ایک طرف طالبان عسکریت پسند اپنی مہلک کارروائیاں کرتے آ رہے ہیں تو وہیں عسکریت پسند گروپ داعش بھی مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔
چند روز قبل کابل میں ایک ثقافتی مرکز اور نیوز ایجنسی کے دفتر پر ہونے والے مہلک حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
داعش کو خطے میں ایک بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے جس کے خلاف افغانستان میں موجود بین الاقوامی فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر چکی ہیں۔
افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان بھی ان افغان علاقوں میں جہاں حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے، اس گروپ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر تحفظات اور تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کہتے افغانستان میں داعش کی موجودگی پر بین الاقوامی طاقتیں بھی تشویش ظاہر کر رہی ہیں جو کہ بلا جواز نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں داعش پر زمین تنگ ہونے کے بعد اس گروپ کے جنگجو اب ان افغان علاقوں کا رخ کر رہے ہیں جہاں حکومتی عملداری نہیں ہے۔
اسی دوران افغانستان میں مذہبی راہنماؤں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی راہ ترک کر کے افغان امن عمل کا حصہ بنیں۔
اعلیٰ امن کونسل نے حال ہی میں کابل میں ملک بھر سے 700 سے زائد مذہبی شخصیات کو مدعو کیا تھا اور اس دو روزہ اجلاس میں افغان امن عمل میں ان کے کردار سے متعلق مشاورت کی گئی۔
اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ طالبان کو ان عناصر کو اپنی صفوں سے نکال دینا چاہیے جو بین الاقوامی دہشت گردی سے وابستہ ہیں اور اسلام اور افغان اقدار کا احترام نہیں کرتے۔