رسائی کے لنکس

ضلع خیبر میں امن ریلی، چند کلومیٹر دور خود کش دھماکا


پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف منگل کو 'امن ریلی' نکالی گئی۔ اس ریلی میں جہاں دہشت گردی کے خلاف نعرے بازی کی گئی وہیں ریلی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مبینہ خود کش دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔

ضلع خیبر کے صحافی عزت گل آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ریلی کا انعقاد قبائلی اتحاد نے کیا تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور عہدے داروں شامل ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بانی منظور پشتین کو بھی اس ریلی میں مدعو کی گیا تھا لیکن سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے وہ شریک نہیں ہوئے۔

عزت گل کے بقول وادی تیراہ میں منعقدہ اس ریلی میں تحصیل باڑہ، جمرود اور لنڈی کوتل کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں نے شرکت کی۔ انہوں نے ہاتھوں میں سفید پرچم تھامے ہوئے تھے۔

ریلی میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی بالخصوص گھات لگا کر قتل کی وارداتوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ اس موقعہ پر شرکا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ علاقے میں موجود تمام عسکریت پسندوں کو فوری طور پر نکالا جائے۔

پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 20 جولائی کو ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں تحصیل کمپاؤنڈ پر دھماکوں میں تین پولیس اہل کار ہلاک جب کہ آٹھ زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے بتایا تھا کہ اس نے دو حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی جس پر انہوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت مختلف علاقوں میں پچھلے کئی روز سے دہشت گردی بالخصوص سیکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔18 جولائی کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کی گاڑی کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں کم از کم آٹھ افراد زخمی ہوگئے تھے۔

ماضی کی طرح رواں برس بھی خیبر پختونخوا اور بالخصوص قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد مقامی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے مختلف مواقع پر امن ریلیوں کا انعقاد کیا۔

مقامی صحافی کے مطابق منگل کو تیراہ میں ہونے والی ریلی میں جب جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے مولانا عزت اللہ نے تقریر شروع کی تو شرکا نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی جس پر انہیں تقریر سے روک دیا گیا۔

بعد ازاں مولانا عزت اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں اس معاملے پر ردِعمل دینے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور تشدد کے خاتمے پر کسی قسم کا اختلاف نہیں۔ وہ بھی آفریدی قبیلے کے ایک فرد کی حیثیت سے امن کے خواہاں ہیں۔

وادیٔ تیراہ میں 'خود کُش دھماکا'

دوسری جانب ضلع خیبر میں تھانہ علی مسجد کی حدود میں ایک دھماکے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

ریسکیو 1122 اور خیبر کے ضلع پولیس افسر کے دفتر نے واقعہ میں پولیس افسر عدنان آفریدی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔

وادی تیرا کو جمرود سے ملانے والے علاقے میں علی مسجد میں دھماکے سے مسجدبھی منہدم ہو گئی۔

جائے وقوع پر موجود پولیس اہل کاروں نے میڈیا کو بتایا کہ "ایک خود کش حملہ آور نے نو تعمیر شدہ مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے جب حملہ آور کی تلاشی لینا شروع کی تو اس نے خود دھماکے سے اڑا لیا۔"

انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا اختر حیات نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ دھماکا خود کش تھا اور مشکوک شخص کی تلاشی کے دوران یہ دھماکا ہوا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک حملہ آور فرار ہوگیا ہے جس کی تلاش جاری ہے۔

وادی تیراہ کے کچھ علاقے کرم اور اورکزئی کے دیگر دو قبائلی اضلاع تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ 2015 تک وادی تیراہ کو مکمل طور پر ایک آزاد علاقے کی حیثیت حاصل رہی تھی۔

نائن الیون کے بعد جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکی اتحاد کا حصہ بن گیا تو وادی تیراہ کے مختلف سرحدی علاقوں میں فوجی دستے تعینات کر دیے گئے۔ مگر پھر بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس سرحد پر آمد و رفت بالخصوص ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کا آنا جانا بلا روک ٹوک جاری رہا۔

سال 2009 میں وادی سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن ’راہ راست‘ کے بعد جب جنوبی وزیرستان میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف ’راہ نجات‘ کے نام سے فوجی کارروائی شروع کی گئی تو اس دوران باڑہ خیبر کے عسکریت پسندوں بشمول عسکریت پسند کمانڈر منگل باغ کے لشکر اسلام کے خلاف بھی سیکیورٹی فورسز نے پیش قدمی شروع کی ۔

منگل باغ اور ان کے وفادار جنگ جوؤں نے وادی تیراہ میں پناہ گاہیں اور مورچے بنائے ۔ بعد میں حکومت نے وادی تیراہ سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کے لیے خیبر ون، خیبر ٹو اور خیبر تھری سمیت متعدد کارروائیاں کرکے 2015 کے اواخر تک اس علاقے میں ریاستی عمل داری قائم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

البتہ اب بھی اس علاقے میں چھپے ہوئے مبینہ عسکریت پسند گاہے بگاہے پر تشدد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG