رسائی کے لنکس

رمضان میں سستے دام پھل فروشی؛ ’چند لوگوں کی شرارت سے نیک کام بند نہیں کرنا چاہیے‘


ارشاد بی بی (فرضی نام) رمضان المبارک کے مہینے کے شروعات ہی سے کراچی کے علاقے جیل چورنگی پر لگائے گئے اسٹال سے پھل لے رہی ہیں جہاں اس مہنگائی کے دور میں محض 10 روپے فی کلو کے حساب سے دو دو کلو پھلوں کی ایک تھیلی دی جا رہی ہے جس سے ارشاد بی بی جیسے سیکڑوں گھرانے افطار میں استعمال کر لیتے ہیں۔

تھیلے میں خربوزہ، سیب اور کیلے جیسے پھل دیے جا رہے ہیں۔ جیل چورنگی فلائی اوور کے عین نیچے ہی لگائے گئے اس چھوٹے سے کیمپ کے باہر سہ پہر ہی سے لائن لگنا شروع ہو جاتی ہے اور پھر شام پانچ بجے جاکر ان لوگوں کو پھل بیچے جاتے ہیں جہاں ارشاد بی بی جیسی درجنوں خواتین اور مرد پھل خریدتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہاں لائن میں لگے بیشتر مزدور، سیکیورٹی گارڈز اور یومیہ مزرودی پر کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو گھر جاتے ہوئے یہاں سے سستے پھل خریدتے ہیں۔

رواں ماہ 24 مارچ یعنی دو رمضان کو اس سبسڈائزڈ فروٹ اسٹال پر لوگوں نے دھاوا بول دیا اور یہاں لوٹ مار مچادی۔ اس دوران بھگدڑ میں شامیانے پھاڑ دیے گئے اور یہاں رکھی ہوئی چیزوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

اسٹال چلانے والے مصطفیٰ حنیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ گزشتہ دوبرس سے یہ اسٹالز ہر سال رمضان کے مہینے میں لگاتے ہیں اور لوگوں کو سست داموں پھل فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ غریب افراد کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور انہیں یہ احساس نہ ہوکہ انہیں کوئی مفت چیز دے رہا ہے۔

ان کے مطابق جمعے کو ہونے والی ہنگامہ آرائی سے انہیں دکھ ہوا۔ وہ اور ان کے ساتھی یہ سوچ رہے تھے کہ اب ایسا اسٹال لگانے کی ضرورت نہیں بلکہ غریب بستیوں میں جاکر ضرورت مندوں میں خود تقسیم کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر رات میں انہوں نے اس پر مزید غور کیا اور یہ خیال سامنے آیا کہ اس اسٹال کے ذریعے بہت سے ایسے لوگوں کے گھروں میں پھل چلے جاتے ہیں جو آج کے مہنگائی کے دور میں افطار پر اپنے دسترخوان پر بچوں کو پھل خرید کر کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

جمعے کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کے انتشار پھیلانے اور شرارت کی وجہ سے نیک کام بند نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے مزید بہتر طریقے سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مصطفیٰ حنیف کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اب اور بھی حوصلے اور تدبر کے ساتھ اس کام کو کرنے میں مگن ہیں۔

پاکستان میں اس وقت تاریخی مہنگائی کا دور ہے، جہاں غذائی اشیا بشمول پھلوں کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 45 فی صد سے بھی زائد ہیں اور آنے والے ہفتوں میں اس میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

مصطفیٰ حنیف کا کہنا تھا کہ وہ سندھ بھر میں سیلاب کے دوران امدادی کام کرچکے ہیں اور ابھی حال ہی میں ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے بھی گئے۔ وہاں اور یہاں بنیادی فرق نظم و ضبط کا نظر آیا۔ ترکیہ میں کوئی بھی شخص امداد کے لیے چھیناجھپٹی یا لوٹ مار کرتا دکھائی نہیں دیتا لیکن یہاں اکثر امدادی کاموں میں ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے پولیس سے مدد مانگی جس پر پولیس نے بھی ان کی مدد کی اور کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگلے ہی دن سے اسٹال کے پاس پولیس کی نفری تعینات کی گئی اور پھر ہمیں اپنا کام بھی بہتر طریقے سے کرنے میں کامیابی مل رہی ہے۔

ترکیہ کے تاریخ پر مشہور ڈرامے "ارتغرل" کے ہیرو اینگن التان کے ہم شکل اور ’پاکستانی ارتغرل‘ کے نام سے مشہور مصطفیٰ حنیف بنیادی طور پر یوٹیوبر ہیں جو سیاحت پر مبنی ویڈیوز بناتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے ہی نام سے خیراتی ادارہ بھی کھول رکھا ہے جس کے تحت صحت، روزگار اور دیگر شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

روزانہ اسٹال پر آنے والے افراد کے حوالے سے مصطفیٰ حنیف نے مزید بتایا کہ روزانہ لگ بھگ 500 سے 600 افراد کو یہ پھل انتہائی سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے تین سال قبل اس کا پلان یہ سوچ کر بنایا کہ ہم کیسے ان غریب افراد کی مدد کرسکتے ہیں جو رمضان میں اپنے بچوں کے لیے کچھ پھل تو خرید کر گھر لے جانا چاہتے ہیں لیکن آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی انہیں اس کی خریداری سے دور رکھتی ہے۔ یہی خیال لے کر چند دوستوں کی مدد سے اسٹال لگایا اور آج یہ سلسلہ کافی بڑھ چکا ہے۔

اسٹال پر پھلوں کی فراہمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے ضرور اثر تو ڈالا ہے اور وہ پھل جو اس سے قبل 60 سے 70 ہزار روپے کا ملتا تھا آج اس کی خریداری منڈی سے ڈیڑھ لاکھ روپے یا اس سے بھی اوپر جاپہنچی ہے۔ مخیر حضرات کے تعاون سے یہ پھل روزانہ کی بنیاد پر منڈی سے خریدا اور پھر انتہائی سستے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔

مصطفیٰ حنیف مستقبل میں اپنے امدادی کام کو مزید بڑھانے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ خاص طور پر تعلیمی میدان میں ایسے طلبہ کے والدین کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس مہنگائی کے دور میں فیس دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG