کراچی —
کیا آپ نے سنا ہے کہ ’ایک بِل سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جانا چاہئیے‘ یا ’آزمائے کو نہیں آزمانا چاہئیے‘۔ یہ مکالمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کسی سے دھوکہ کھاتا ہے اور اسے نصیحت کے طور پر آئندہ احتیاط کرنے اور ایک ہی گڑھے میں بار بار نہ گرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔
لیکن، بات یہ ہے کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟
ایسا تو نہیں کہ لوگ بغیر محنت کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر دوسروں کی کوششوں کے ثمرات خود ہڑپ کرنا چاہتے ہیں؟
یا پھر، کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگ جو کچھ ان کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے اسے کھونے کے ڈر سے ایسا کرتے ہوں، مثلاً اپنی ’عزت‘ یا ’کریئر‘ کو بچانے کی خاطر!
’سائنٹیفک امیریکن مائنڈ‘ نامی جریدے کے مطابق، معاشرے میں کھیل، تعلیم، سائنس اور مالی معاملات سمیت زندگی کے دیگر امور میں دھوکہ دہی کی خبریں عام ہیں۔ لیکن، یہ بات باعث اطمنان ہوتی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں، عمومی طور پر، زیادہ تر لوگ ضابطوں کے پابند یا اُنھیں ترجیح دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن، پھر بھی، اپنے فائدے کے لئے بے ایمانی کرنا دراصل حیرت انگیز طور پر عام سی بات ہے۔
جریدے کے مطابق، سائنس داں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے تاکہ معاشرے پر دھوکہ دہی کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں، جو ان کے پاس ہیں، اسے کھونے کا ڈر اور معاشرے میں بے ایمانی ہوتے دیکھنا، دوسروں میں ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کی طرف مائل کرتا ہے۔
جریدہ کہتا ہے کہ ’چیٹنگ‘، یعنی فریب، صرف انسانوں میں ہی نہیں، بلکہ جانداروں میں ہر اس جگہ سامنے آتا ہے جہاں وسائل کم اور ان کے حصول کے لئے مقابلہ سخت ہو۔ اور اس طویل فہرست میں جراثیم سے لے کر جانور تک سب شامل ہیں، جو دوسرو ں کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ لیکن، انسان جو کہ مخلوقات میں بہتر دماغی صلاحیت کا حامل ہے، افضل ہے۔ اُن کی اس صلاحیت میں بہتری دوسروں کو دھوکہ دینے کی صلاحیت اور امکانات میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، پچھلے 18 سال سے امریکہ میں مقیم مجرموں کا نفسیاتی علاج کرنے والی پاکستانی ماہر نفسیات، ڈاکٹر منیزا شاھ نے کہا ہے کہ لوگ دوسروں کو دھوکہ چار وجوہات کی بنا پر دیتے ہیں۔ پہلی وجہ ہے زندہ رہنے کی خواہش، یعنی جب لوگ یہ سمجھ بیٹھیں کہ دھوکے بازی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے، کیونکہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا، اور یہ کہ، اُن کی دانست میں، یہ کام بغیر دھوکے کے چلنے والا نہیں۔
ان کے بقول، دوسری وجہ یہ ہے کہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا۔
اور یوں، وہ روبن ہڈ کی طرح، دوسروں کو لوٹنے کی کوئی توجیہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق، دھوکہ دینے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جب اتنے سارے لوگ دھوکے بازی سے کام لے رہے ہوں، تو آخر وہ خود ایسا کیوں نہ کرے؟ یا یہ کہ، ایسا کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟
اور چوتھی وجہ یہ کہ لوگ بے حس ہو چکے ہوں، اور انھیں اب پتا ہی نہیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اور انھیں کسی ضابطہ کار و اصول سے کوئی سرو کار نہیں۔
بس، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بچے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں!
ماہرین کے مطابق، دھوکے بازی ایک بیماری کی طرح ہوتی ہے جسے اگر وقت پر قابو نہ کیا جائے تو مزید پھیل جاتی ہے۔
اِس کی روک تھام میں انسانی ضمیر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن، اگر لوگوں کو غلط کام کرنے پر شرمندہ کیا جائے تو وہ ایسے کاموں سے دور رہتے ہیں۔ اور، ساتھ ہی ساتھ، غلط کاموں پر سزا اور اچھے کاموں پر جزا کا رواج بھی مددگار و معاون ثابت ہوتا ہے۔
لیکن، بات یہ ہے کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟
ایسا تو نہیں کہ لوگ بغیر محنت کے فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر دوسروں کی کوششوں کے ثمرات خود ہڑپ کرنا چاہتے ہیں؟
یا پھر، کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگ جو کچھ ان کے پاس پہلے سے موجود ہوتا ہے اسے کھونے کے ڈر سے ایسا کرتے ہوں، مثلاً اپنی ’عزت‘ یا ’کریئر‘ کو بچانے کی خاطر!
’سائنٹیفک امیریکن مائنڈ‘ نامی جریدے کے مطابق، معاشرے میں کھیل، تعلیم، سائنس اور مالی معاملات سمیت زندگی کے دیگر امور میں دھوکہ دہی کی خبریں عام ہیں۔ لیکن، یہ بات باعث اطمنان ہوتی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں، عمومی طور پر، زیادہ تر لوگ ضابطوں کے پابند یا اُنھیں ترجیح دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن، پھر بھی، اپنے فائدے کے لئے بے ایمانی کرنا دراصل حیرت انگیز طور پر عام سی بات ہے۔
جریدے کے مطابق، سائنس داں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ دھوکہ کیوں دیتے ہیں؟ یہ جاننا اس لیے ضروری ہے تاکہ معاشرے پر دھوکہ دہی کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق، لوگوں میں تخلیقی صلاحیتیں، جو ان کے پاس ہیں، اسے کھونے کا ڈر اور معاشرے میں بے ایمانی ہوتے دیکھنا، دوسروں میں ایسے عمل کی حوصلہ افزائی کی طرف مائل کرتا ہے۔
جریدہ کہتا ہے کہ ’چیٹنگ‘، یعنی فریب، صرف انسانوں میں ہی نہیں، بلکہ جانداروں میں ہر اس جگہ سامنے آتا ہے جہاں وسائل کم اور ان کے حصول کے لئے مقابلہ سخت ہو۔ اور اس طویل فہرست میں جراثیم سے لے کر جانور تک سب شامل ہیں، جو دوسرو ں کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ لیکن، انسان جو کہ مخلوقات میں بہتر دماغی صلاحیت کا حامل ہے، افضل ہے۔ اُن کی اس صلاحیت میں بہتری دوسروں کو دھوکہ دینے کی صلاحیت اور امکانات میں اضافے کا سبب ہوتی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے، پچھلے 18 سال سے امریکہ میں مقیم مجرموں کا نفسیاتی علاج کرنے والی پاکستانی ماہر نفسیات، ڈاکٹر منیزا شاھ نے کہا ہے کہ لوگ دوسروں کو دھوکہ چار وجوہات کی بنا پر دیتے ہیں۔ پہلی وجہ ہے زندہ رہنے کی خواہش، یعنی جب لوگ یہ سمجھ بیٹھیں کہ دھوکے بازی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے، کیونکہ کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا، اور یہ کہ، اُن کی دانست میں، یہ کام بغیر دھوکے کے چلنے والا نہیں۔
ان کے بقول، دوسری وجہ یہ ہے کہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا۔
اور یوں، وہ روبن ہڈ کی طرح، دوسروں کو لوٹنے کی کوئی توجیہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق، دھوکہ دینے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جب اتنے سارے لوگ دھوکے بازی سے کام لے رہے ہوں، تو آخر وہ خود ایسا کیوں نہ کرے؟ یا یہ کہ، ایسا کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟
اور چوتھی وجہ یہ کہ لوگ بے حس ہو چکے ہوں، اور انھیں اب پتا ہی نہیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اور انھیں کسی ضابطہ کار و اصول سے کوئی سرو کار نہیں۔
بس، یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بچے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں!
ماہرین کے مطابق، دھوکے بازی ایک بیماری کی طرح ہوتی ہے جسے اگر وقت پر قابو نہ کیا جائے تو مزید پھیل جاتی ہے۔
اِس کی روک تھام میں انسانی ضمیر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن، اگر لوگوں کو غلط کام کرنے پر شرمندہ کیا جائے تو وہ ایسے کاموں سے دور رہتے ہیں۔ اور، ساتھ ہی ساتھ، غلط کاموں پر سزا اور اچھے کاموں پر جزا کا رواج بھی مددگار و معاون ثابت ہوتا ہے۔