رسائی کے لنکس

کیا کتابوں کا کاروبار مسائل کا شکارہے؟


کیا کتابوں کا کاروبار مسائل کا شکارہے؟
کیا کتابوں کا کاروبار مسائل کا شکارہے؟

نیو یارک میں کتابوں کی ایک ایسی پرانی دوکان بھی موجود ہے جہاں کتابوں کی فروخت نہ صرف اطمینان بخش ہے، بلکہ اِن کا کاروبار روز بروز ترقی کر رہا ہے۔

گذشتہ کچھ سالوں سے امریکہ میں کتابوں کا کاروبار مسائل کا شکار ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کتابوں کےبڑے اسٹورز پر کم قیمت کتابوں کی دستیابی کی وجہ سے کتابیں فروخت کرنے والی چھوٹی دکانیں بند ہوگئی تھیں، مگر اب انٹرنیٹ پر موجود مواد اورebooksیعنی برقی کتابوں کی موجودگی میں بڑے بک اسٹورز مالی نقصان کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن، نیو یارک میں کتابوں کی ایک ایسی پرانی دوکان بھی موجود ہے جہاں کتابوں کی فروخت نہ صرف اطمینان بخش ہے، بلکہ اِن کا کاروبار روز بروز ترقی کر رہا ہے۔

نیو یارک کے علاقے میں Strand Bookstoreنامی ایک دوکان نیو یارک یونی ورسٹی کی سب سے بڑی عمارتوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ اِس دوکان کو نیو یارک کے قدیم ثقافتی ادارےکی حیثیت حاصل ہے، جب کہ اِس کی پہچان دوکان کے باہر لگی وہ میزیں بھی ہیں جہاں ایک ڈالر کی کتاب موجود ہوتی ہے۔

اِس دوکان کی منیجر Nancy Bass Wydenہیں، جن کے دادا بینجمن باس نے یہ دوکان 84برس قبل شروع کی تھی۔ نینسی اور اُن کے والد فریڈ باس تسلیم کرتے ہیں کہ دوکان کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اُس کا نیو یارک میں ہونا ہے۔ اُن کے بقول، ’ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ نیویارک میں ہیں جو کہ پوری دنیا کا ثقافتی مرکز ہے۔ یہاں اچھی لائبریریاں ہماری دسترس میں ہیں اور بڑے بڑے مصنف بھی آتے جاتے رہتے ہیں‘۔

گوکہ، امریکہ میں کتابوں کی ایک چین Bordersنے حال ہی میں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ میں اپنے کئی اسٹورز بند کر رہا ہے، فریڈ کہتے ہیں کہ نامساعد کاروباری حالات کے باوجود’ اسٹرانڈ بک اسٹور‘کے کاروبار میں وسعت کی وجوہات مختلف ہیں۔

اُن کے بقول، ’ہماری کتابوں کی قیمتیں اطمینان بخش ہیں۔ ہم نئی شائع شدہ کتابوں کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ ہمارے پاس کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے جو کہیں اور نہیں ملے گا۔ ہماری عمارت کی پانچ منزلیں ہیں جِن میں کتابیں ہی کتابیں ہیں‘۔

Ebooksیا برقی کتابوں کے آنے کے بعد سے کتابوں کے روایتی کاروبار کونقصان پهنچا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2008ء کے بعد سےاب تک برقی کتابوں کی شرحِ فروخت میں 10گنا اضافہ ہوا ہے۔ اُن کے بقول، ’ہم اپنی دوکان میں ebooksنہیں رکھتے۔ ہمارے بہت سے خریدار برقی کتابیں پسند نہیں کرتے۔ ہمارے پاس جو خریدار آتے ہیں اُن کا ذوق بہت محدود ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ یہاں صرف بڑی عمر کے پروفیسر ٹائپ لوگ ہیں آتے ہیں۔ بلکہ، یہاں نوجوان بھی آکر ارسطو اور دیگر اچھی ادبی کتابیں طلب کرتے ہیں‘۔

گوکہ، پچھلے کچھ عرصے سے روایتی کتابوں کا کاروبار منافع بخش نہیں رہا، اِس کے باوجود کتابوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

کتابوں کے کاروبار کے حوالے سے کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 2010ء میں امریکہ میں 28ارب ڈالرز کی کتابیں فروخت ہوئیں اور گذشتہ دو برسوں میں کتابوں کی فروخت کی شرح میں 5.6فی صد اضافہ دیکھا گیا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG