رسائی کے لنکس

پاکستانی بحریہ کے پانچ سابق اہل کاروں کی سزائے موت پر حکم امتناع جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نےپاکستانی بحریہ کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت پر حکم امتناع جاری کر دیا۔
  • کراچی ڈاکیارڈ پر سال 2014 میں ہونے والےاس حملے کے 5ملزموں کو سال 2016 میں سزائے موت سنا ئی گئی تھی۔
  • ملزمان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اس کیس میں جرم، ٹرائل اور سزا سے متعلق ریکارڈ انہیں آج تک نہیں ملا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے کراچی ڈاکیارڈ پر سال 2014 میں ہونے والے حملہ کے الزام میں سزائے موت پانے والے پاکستان بحریہ کے پانچ سابق افسران کی سزائے موت پر حکم امتناع جاری کردیا ہے۔

2014 میں ہونے والے اس حملہ کے 5ملزموں کو سال 2016 میں سزائے موت سنا دی گئی تھی۔

ملزمان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اس کیس میں جرم، ٹرائل اور سزا سے متعلق ریکارڈ انہیں آج تک نہیں ملا۔

ان ملزمان میں سابق لیفٹننٹ ارسلان نذیر ستی،سابق لیفٹننٹ محمد حماد، سابق لیفٹننٹ حماد احمد خان،سب لیفٹننٹ عرفان اللہ اور سیلر طاہر رشید شامل تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ ان پانچ افراد کے علاوہ ایک اور ملزم لیفٹننٹ ہاشم کی اپیل سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

سندھ ہائی کورٹ کی عمارت ۔ فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ کی عمارت ۔ فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ ان پانچوں افراد کو 2014 میں گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد دو سال تک ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔ اس کے بعد سال 2016 میں انہیں بتایا گیا کہ نیول کورٹ نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کرتے ہوئے ان 5 افراد کو سزائے موت سنا دی ہے۔

ایڈووکیٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کہا کہ پاک بحریہ کے پانچ افسران کو پی این ایس ذوالفقار پر حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر نیول جج ایجوٹینٹ جنرل برانچ میں مقدمہ چلایا گیا اور 2016 میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران پاک بحریہ کی جانب سے کسی قسم کا ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے نہ ہی سزا کی نوعیت سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔

بعد ازاں اس بارے میں پاکستان بحریہ کی طرف سے آگاہ کیا گیا وہ اپیل دائر کرسکتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی دستاویزات اور تفصیل فراہم نہیں کی گئی جس کے بعد یہ اپیل مسترد کردی گئی۔

کرنل انعام نے کہا کہ نیوی کی طرف سے ہمیں کبھی بھی نہ تو چارج شیٹ، نہ ہی سمری آف ایویڈینس، ٹرائل ریکارڈ، کیس پروسیڈنگ اور کسی قسم کی دستاویزات نہیں دی گئی۔

اس بارے میں سال 2019 میں ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی لیکن دو سال کے بعد ہمیں اسلام آباد ہائیکورٹ جانے کا کہا گیا ۔

اس کیس میں اب جسٹس بابر ستار نے مختصر سماعت کے بعد حکم امتناع جاری کیا ہے جس میں پانچوں ملزمان کی سزائے موت پر حتمی فیصلہ ہونے تک عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔

کرنل انعام کا کہنا تھا کہ تمام ملزمان کو خفیہ ٹرائل کے ذریعے سزا سنائی گئی ہےجو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ ہمیں اب تک صحیح طور پر معلوم ہی نہیں کہ ان کے خلاف الزامات کیا ہیں۔ ان پر بغاوت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں لیکن کیا واقعہ پیش آیا اور جس واقعہ کو بنیاد بنا کر سزائیں سنائی گئی ہیں اس میں ان افراد کا کردار کیا تھا اس بارے میں ہمیں آج تک کوئی معلومات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ان سزاؤں پر حکم امتناع کے بعد ہمیں امید ہے کہ ہمیں اس کیس سے متعلق دستاویزات فراہم کی جائیں گی جس کے بعد اس کیس میں انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جاسکے گا۔

ستمبر 2014 میں ہونے والا حملہ

کراچی ڈاکیارڈ پر یہ حملہ ستمبر 2014 میں کیا گیا تھا۔ اس وقت ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور پی این ایس ذوالفقار نامی جنگی جہاز کو ہائی جیک کر کے ایندھن بھرنے والے ایک امریکی جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

اس وقت نیوی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کو ناکام بنا کر دو حملہ آوروں کو ہلاک اور چار کو گرفتارکرلیا گیا تھا۔

مبینہ طور پر ہلاک ہونے والا ایک حملہ آور سندھ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا تھا۔

اس حملے کی ذمہ داری کے حوالے سے بھی متضاد دعوے سامنے آئے تھے۔ ٹی ٹی پی اور القاعدہ برصغیر نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس کیس کی حوالے سے پاکستان بحریہ یا حکومت کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ پاکستان فوج کی طرف سے ماضی میں بھی کئی افسران کا کورٹ مارشل کیا جاچکا ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر پر کرپشن کے الزامات تھے۔پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ان کا اپنا اندرونی احتساب کا بہترین نظام موجود ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG