رسائی کے لنکس

غزہ جنگ: ثالثوں کا اسرائیل اور حماس سے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے کا مطالبہ


  • اسرائیل اور حماس پر غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات میں ثالثی کرنے والے ممالک نے صدر بائیڈن کا مجوزہ معاہدہ قبول پر زور دیا ہے۔
  • امریکہ، قطر اور مصر نے مشترکہ بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن کے تجویز کردہ معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔
  • مجوزہ معاہدے میں ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کی جنگ بندی تجویز کی گئی ہے۔
  • اسرائیل میں حکومتی اتحادیوں نے مجوزہ معاہدہ قبول کرنے کی صورت میں حکومت گرانے کی دھمکی دی ہے۔
  • اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ایک معاون نے معاہدہ تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اسرائیل اور حماس میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے ثالثی کرنے والے ممالک نے زور دیا ہے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے پیش کردہ امن معاہدے کو حتمی شکل دیں۔

امریکہ، قطر اور مصر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی، یرغمالوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری بات چیت میں ثالث کے طور پر وہ حماس اور اسرائیل دونوں سے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جو جمعے کو امریکی صدر جو بائیڈن نے پیش کیا تھا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امن معاہدے میں ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کی جنگ بندی ہو گی جس میں اسرائیلی فوج کے جزوی انخلا کے علاوہ کچھ یرغمالوں کی رہائی شامل ہو گی جب کہ ثالثوں کے ذریعے فریقین کے درمیان مسائل کے مستقل حل کے لیے بات چیت ہو گی۔

اسرائیل کے وزیرِا عظم بن یامین نیتن یاہو کے ایک قریبی ساتھی نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں جنگ بندی کے لیے تجویز کیے گئے معاہدے کو تسلیم کر سکتی ہے۔ قبل ازیں اسرائیل نے اس مجوزہ معاہدے کو ناقص بھی قرار دیا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے خارجہ پالیسی کے مشیر اوفیر فلک نے برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کو انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکی صدر کے تجویز کردہ معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے بقول یہ معاہدہ اچھا تو نہیں ہے۔ لیکن یرغمالوں کی رہائی ک لیے اس کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔

قبل ازیں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ہفتے کو اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی شرائط میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اسرائیل کے مطابق حماس اور اس کی انتظامی صلاحیتوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تمام یرغمالوں کی رہائی تک کارروائی جاری رہے گی جب کہ اس سے یہ بھی ممکن بنانا ہے کہ غزہ اب اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔

نیتن یاہو کی کابینہ کے دائیں بازو کے ارکان نیشنل سیکیورٹی وزیر اتمار بین گور اور وزیر خزانہ بیزلال سموترچ نے ہفتے کو دھمکی دی کہ اگر نیتن یاہو بائیڈن کے پیش کردہ امن معاہدے پر رضامند ہوتے ہیں تو وہ نیتن یاہو کی حکومت گرا دیں گے۔

دوسری طرف اپوزیشن لیڈر یائر لایپڈ نے نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی صدر کی تجویز مان لیں۔ اگر بین گویر اور سموتریچ نے حکومت گرانے کی کوشش کی تو وہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کی حمایت کریں گے۔

اس کے علاوہ یرغمالوں کے خاندانوں نے اسرائیل اور حماس سے معاہدہ ماننے پر بھی اصرار کیا ہے۔

ہفتے کو اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں یرغمالوں کی واپسی کے لیے ریلی نکالی گئی۔

رفح: 'صورتِ حال آپ کی سوچ سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:52 0:00

علاوہ ازیں حماس کا جمعے کو کہنا تھا کہ وہ مثبت اور تعمیری انداز میں شمولیت کے لیے رضا مند ہے۔

حماس کے سینئر عہدیدار محمود مردودی نے قطری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حماس کو ابھی تک اس معاہدے کی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں۔

اسرائیلی فورسز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوج کے انخلا اور جنگ بندی کے مطالبے کو پورا کیے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

حماس کی شرائط میں جنگ کا خاتمہ اور غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا شامل ہے۔

واضح رہے کہ صدر بائیڈن کے تجویز کردہ معاہدے میں جنگ بندی کے لیے تین مراحل تجویز کیے گئے ہیں جس کا آغاز چھ ہفتوں کے لیے جنگ میں عارضی وقفے سے ہو گا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ عارضی وقفہ حماس کے ساتھ دشمنی کے مزید مستقل خاتمے کا باعث بنے گا۔

خیال رہے کہ غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کو حملے سے ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا جن میں 100 اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں۔

دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائی میں لگ بھگ 35 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

XS
SM
MD
LG