نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتے کے دوران نا معلوم حملہ آوروں نے کم سے کم ڈیڑھ درجن لڑکیوں اور خواتین کی چوٹیاں کاٹیں جس کے بعد کئی علاقوں میں خواتین نے اکیلے گھروں سے نکلنا ہی بند کردیا ہے۔
ان واقعات کے خلاف دارالحکومت سرینگر میں جہاں تازہ حملے میں شہر کے سعدہ پورہ علاقے میں چھٹی جماعت کی ایک طالبہ ماریہ فیاض کی چوٹی کاٹی گئی تھی ، لوگوں نے سڑکوں پر آکر احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ اس طرح کے مظاہرے ریاست کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی کئے گئے۔
اس سے پہلے ریاست کے جموں صوبے کی چناب وادی میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے تھے جس کے بعد حکام نے کم از کم دو اضلاع میں پولیس کی اجازت کے بغیر اجنبیوں با الخصوص غیر ریاستی پھیری والوں ، عطر فروشوں ، مزدوروں اور بھکاریوں کے داخلے پر دو ماہ کے لئے پابندی عائد کردی تھی۔
پولیس نے ان پُراسرار واقعات سے لوگوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کے پیشِ نظر اور مزید واقعات روکنے کے لئے تمام اضلاع میں 24 گھنٹے فعال رہنے والی ہیلپ لائنز قائم کردی ہیں اور لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اس طرح کے کسی واقعے کی صورت میں یا علاقے میں مشتبہ افراد کی موجودگی کی اطلاع فوری طور پر ہیلپ لائنز کو دیں۔
تاہم انسپکٹر جنرل آف پولیس منیر احمد خان نے شکایت کی ہے کہ متاثرہ خواتین پولیس کے سامنے نہیں آرہی ہیں – انہوں نے کہا کہ تاحال کسی نے بھی متاثرہ خاتون یا لڑکی نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے اور نہ اپنا بیان قلم بند کرایا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا- 'ہم تحقیقات کریں تو کس چیز کی؟"
پولیس نے وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی ہدایت پر اب تک کے واقعات کی تحقیقات کرنے کے لئے خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں بھی تشکیل دے دی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ نے یقین دلایا ہے کہ ان تمام واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے گی اور قصور واروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
حزبِ مخالف کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے واقعات میں اضافے پر شدید فکرو تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اسے روکنے میں بری طرح ناکام ہے۔
دوسری جانب استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور ہم خیال سماجی ، تاجر اور سول سوسائٹی گروپس کا اصرار ہے کہ کشمیری خواتین میں خوف و ہراس پیدا کرنے اور ان کی عزت وناموس پر ہاتھ ڈالنے کے پیچھے بھارتی مسلح افواج اور دوسری ایجنسیز کا ہاتھ ہے۔
بُدھ کے روز سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر ایک مظاہرے کے دوران شرکاء نے، جو کتبے ہاتھوں میں اُٹھا رکھے تھے ان پر لکھی عبارات اور نعرے اسی طرح کے الزامات کی عکاسی کررہے تھے۔
عہدیداروں نے ان الزامات کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے ان جماعتوں پر صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے اور اس کی آڑ میں لوگوں میں پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں کے بارے میں بد گمانی پیدا کرنے کا جوابی الزام لگایا ہے۔
پولیس نے زلف تراشی کے واقعات کو ہیسٹیریا یا کسی نفیاتی بیماری سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ بعض ڈاکٹروں نے اس مفروضے کی تائید کی ہے۔
پولیس نے جمعرات کو شمال مغربی شہر بارہ مولہ میں چوٹی کاٹنے کو اسی نوعیت کا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس نو عمر لڑکی نے گھر کے اندر ہدف بنائے جانے کی شکایت کی تھی، وہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔
بعض متاثرین کے رشتے داروں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ چوٹیاں کاٹنے والوں نے پہلے ان پر کسی خاص چیز کا سپرے کیا جس سے وہ بے ہوش ہو گئیں اور جب انہیں ہوش آیا تو اُن کی چوٹیاں کاٹی جا چکی تھیں۔ تاہم دو یا تین واقعات کے متعلق بتایا گیا ہے کہ پر اسرار حملہ آور اس تیزی سے چوٹیاں کاٹ کر فرار ہو گئے کہ انہیں صورت حال کو سمجھنے یا مزاحمت کا موقعہ ہی نہیں ملا اور پھر صدمے کی کیفیت میں ان سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔