رسائی کے لنکس

جنگی کارروائیوں میں افغان بچوں کی شرح اموات میں اضافہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ لعل گل لعل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے جانی نقصان سے بچنے کے لیے اقدام پر سنجیدگی سے توجہ دے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کے شہری علاقوں میں ہونے والی تشدد پر مبنی اور جنگی کارروائیوں میں بچوں اور خواتین کے ہلاک و زخمی ہونے کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اتوار کو افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ رواں سال جنوری سے مارچ تک 116 افغان بچے ہلاک اور 449 زخمی ہوئے جو کہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران ہونے والے جانی نقصان سے 25 فیصد زیادہ ہے۔

اس سال مارچ تک افغانستان میں 600 افراد ہلاک اور 1343 زخمی ہوئے اور مشن کے مطابق 2015ء میں اتنے ہی وقت میں ہونے والی اموات کی نسبت یہ شرح 13 فیصد کم ہے لیکن زخمیوں کی شرح میں 11 فیصد تک اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔

رواں سال مارچ تک ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 52 بتائی گئی جب کہ 143 عورتیں زخمی بھی ہوئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گو کہ زیادہ تر ہلاک و زخمی ہونے والوں کی ذمہ داری حکومت مخالف عناصر پر عائد ہوتی ہے لیکن سرکاری فورسز کی طرف سے کی گئی کارروائیوں میں بھی جانی نقصان دیکھا گیا ہے۔

معاون مشن کے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر ڈینیئل بیل نے ایک بیان میں کہا کہ "اگر اسکولوں، کھیل کے میدانوں، گھروں اور شفاخانوں کے قریب لڑائی جاری رہتی ہے اور فریقین ان علاقوں میں دھماکا خیز مواد خاص طور پر دیسی ساختہ بم استعمال کرتے ہیں تو بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"

افغانستان میں انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ لعل گل لعل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے جانی نقصان سے بچنے کے لیے اقدام پر سنجیدگی سے توجہ دے۔

"حکومت مخالف جو گروپس ہیں وہ تو جنگجو ہیں اور وہ لڑ رہے ہیں ان میں کئی غیر ملکی جنگجو ہیں تو ان کو تو پرواہ نہیں اور ان کو فرق نہیں پڑتا کہ کم افغان مر رہے ہیں یا زیادہ۔ فرق کی بات یہ ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی افواج کی طرف سے شہریوں کی ہلاکت کیوں ہو رہی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ لڑائی میں شدت آنے سے زیادہ نقصان افغان شہریوں کا ہوگا۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب حال ہی میں طالبان نے تشدد پر مبنی اپنی تازہ کارروائیوں کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور شمالی علاقے قندوز میں انھوں نے تازہ حملہ بھی کیا جسے سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔

اس کے علاوہ جنوبی صوبہ ہلمند میں بھی طالبان کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا جہاں سکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دسمبر 2014ء میں بین الاقوامی افواج اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے وطن واپس چلی گئی تھیں لیکن ایک محدود تعداد میں بین الاقوامی فوجی اب بھی افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس افغانستان میں جاری جنگی صورتحال کے باعث 3545 شہری ہلاک اور 7457 زخمی ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG