جنوبی کوریا کی صدر پارک گیئون ہئی نے کہا ہے کہ غرقاب کشتی کے سانحے سے نمٹنے کے لیے "ناکافی" ردعمل پر معافی مانگی ہے۔
منگل کو کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر پارک نے 16 اپریل کے اس حادثے سے بچنے میں ناکامی پر بھی معذرت کی۔
دو ہفتے قبل جنوب مغربی ساحل کے قریب بحری جہاز اچانک ڈوب گیا تھا اور اس میں 300 سے زائد افراد ہلاک اور لاپتا ہو گئے تھے۔ ان میں اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی جو سیاحتی جزیرے جیجو جارہے تھے۔
صدر نے حفاظتی معیار بڑھانے اور بڑے پیمانے پر ہونے والے حادثے یا آفت سے نمٹنے کے لیے ایک سرکاری ایجنسی بنانے کا وعدہ کیا۔
"میں حادثے سے بچاؤ میں ناکامی اور ناکافی ابتدائی اقدامات پر معافی چاہتی ہوں۔ میرا خیال ہے میری معذرت متاثرین کے دکھ و تکلیف کو کم کر سکے گی حالانکہ اس سے میرا بھی دل دکھا ہے۔ میں بوجھل دل کے ساتھ عوام سے معافی مانگتی ہوں کہ اس حادثے کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔"
غوطہ خوروں نے ڈوبے ہوئے جہاز سے اب تک 193 لاشیں نکال لی ہیں۔ تقریباً 100 سے زائد مسافر اب بھی لاپتا ہیں اور ان کے بارے میں یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی موت کا شکار ہو چکے ہوں گے۔
مرنے والوں کے بیشتر لواحقین امدادی کارروائیوں میں تاخیر پر شدید برہم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کشتی میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے مزید اقدامات کرکے زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
وزیراعظم چنگ ہونگ وون اس واقعے پر اپنا استعفیٰ پیش کر چکےہیں لیکن صورتحال پوری طرح قابو میں نہ آنے تک وہ اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ صدر پارک نے معذرت کی ہے۔
منگل کو کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر پارک نے 16 اپریل کے اس حادثے سے بچنے میں ناکامی پر بھی معذرت کی۔
دو ہفتے قبل جنوب مغربی ساحل کے قریب بحری جہاز اچانک ڈوب گیا تھا اور اس میں 300 سے زائد افراد ہلاک اور لاپتا ہو گئے تھے۔ ان میں اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی جو سیاحتی جزیرے جیجو جارہے تھے۔
صدر نے حفاظتی معیار بڑھانے اور بڑے پیمانے پر ہونے والے حادثے یا آفت سے نمٹنے کے لیے ایک سرکاری ایجنسی بنانے کا وعدہ کیا۔
"میں حادثے سے بچاؤ میں ناکامی اور ناکافی ابتدائی اقدامات پر معافی چاہتی ہوں۔ میرا خیال ہے میری معذرت متاثرین کے دکھ و تکلیف کو کم کر سکے گی حالانکہ اس سے میرا بھی دل دکھا ہے۔ میں بوجھل دل کے ساتھ عوام سے معافی مانگتی ہوں کہ اس حادثے کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔"
غوطہ خوروں نے ڈوبے ہوئے جہاز سے اب تک 193 لاشیں نکال لی ہیں۔ تقریباً 100 سے زائد مسافر اب بھی لاپتا ہیں اور ان کے بارے میں یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ بھی موت کا شکار ہو چکے ہوں گے۔
مرنے والوں کے بیشتر لواحقین امدادی کارروائیوں میں تاخیر پر شدید برہم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کشتی میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے مزید اقدامات کرکے زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔
وزیراعظم چنگ ہونگ وون اس واقعے پر اپنا استعفیٰ پیش کر چکےہیں لیکن صورتحال پوری طرح قابو میں نہ آنے تک وہ اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ صدر پارک نے معذرت کی ہے۔