شمسی توانائی سے اُڑنے والے سویٹزر لینڈ کے ایک جہاز نے ابوظہبی کے ہوائی اڈے سے دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے پیر کی صبح اپنے سفر کا آغاز کیا۔
اس کے تخلیق کاروں کو توقع ہے کہ یہ دنیا کے گرد چکر لگانے کا پہلا ایسا سفر ہو گا جس میں کوئی ایندھن استعمال نہیں ہو گا۔
کاربن فائبر سے بنا واحد سیٹ والا ’سولر امپلس ٹو‘ (ایس آئی 2) جہاز کے پروں کی لمبائی 72 میٹر ہے جو کہ بوئنگ 747 کے پروں سے زیادہ طویل ہیں اور اس کا وزن ایک کار کے وزن کے برابر ہے۔
جہاز کے پروں میں 17,000 شمسی سیلز نصب ہیں جب توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے لیتھیئم بیٹریاں بھی ہوں گی جن کے ذریعے شمسی توانائی کو استعمال میں لا کر یہ جہاز پوری رات پرواز کر سکتا ہے۔
اس طیارے کے لیے بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کو عبور کرنے کے لیے رات کے وقت پرواز انتہائی اہم ہو گی، کیونکہ شمسی توانائی سے چلنے والے اس جہاز کی اوسط رفتار 72 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔
’ایس آئی 2‘ جہاز کو بنانے کے لیے 12 سال لگے اور یہ سویٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو سائنسدانوں برتروں پیکارڈ اور اینڈریو بوریش برگ کی ایجاد ہے۔
بورشبرگ جو پیر کو بطور پائلٹ اس جہاز کو اڑا رہے ہیں وہ سولر امپلس کمپنی کے سربراہ بھی ہیں۔ بوریش برگ ایک تربیت یافتہ پائلٹ ہیں۔ وہ اور اُن کے ساتھی پیکارڈ مختلف ہوائی اڈوں پر عارضی طور پر ٹھہرنے کے دوران بطور پائلٹ اپنی ذمہ داریاں تبدیل کرتے رہیں گے۔
پیکارڈ ایک ماہر نفسیات، تحقیق کار اور ہوا باز ہیں، وہ سب سے پہلے بغیر رکے گرم ہوا کے ایک غبارے کے ذریعے پوری دنیا کا چکر لگا چکے ہیں۔
ان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ہوابازی کے شعبے میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لانا چاہتے لیکن وہ متبادل توانائی کے حقیقی ذرائع کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی سے وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جس کو بعض (لوگ) ناممکن سمجھتے ہیں۔
ایس آئی 2 جہاز کے اس سفر کے دوران کچھ مرحلوں کے دوران پائلٹوں کو چھوٹے سے کاک پٹ میں مسلسل پانچ سے چھ دن اور رات کے دوران بھی رہنا پڑے گا۔