آج نئے سال دوہزار گیارہ کا پہلا سورج گرہن تھا جو دنیا کے بیشتر ممالک میں دیکھا گیا ۔ ان ممالک میں پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت ، افغانستان، ایران، چین،تبت، عراق، روس، بحیرہ عرب، اٹلی ، پولینڈ، جرمنی، فرانس، مصراور الجیریا شامل ہیں۔
پاکستان میں جزوی سورج گرہن ہوا جس کا آغا زصوبہ بلوچستان سے دن گیارہ بجکر چالیس منٹ پر ہوا ۔ اسلام آباد میں سورج گرہن کا آغاز دو بجکر تین منٹ اور اختتام تین بجکر اڑتالیس منٹ پر ہوا جبکہ کراچی میں دو بجکر چار منٹ پر آغا ز اور تین بجکر پچیس منٹ پر اختتام ہوا ۔ لاہور میں سورج گرہن دوبجکر تیرہ منٹ پرشروع اورتین بجکر اکتالیس منٹ پر ختم ہوا۔
سورج گرہن آج بھی مشرقی معاشروں کے لئے کسی اچنبے سے کم نہیں۔ اس سے متعلق لوگوں میں طرح طرح کے خوف اور عجیب و غریب تصورات پائے جاتے ہیں۔ اکثر معاشروں میں یہ خیال عام ہے کہ گرہن اس وقت لگتا ہے جب سورج کو بلائیں، ڈریگن یا خوفناک جانور نگل لیتے ہیں۔
بھارت میں آج ہونے والے گرہن کو خاصی اہمیت حاصل تھی ۔ ہندوٴ عقائد کے مطابق اس گرہن کے اچھے اور برے اثرات قسمت کے ستاروں پر بھی پڑیں گے جس کے سبب سورج گرہن کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ بھارت میں سورج گرہن نینی تال، الوڑا، مراد آباد، مظفر نگر، رامپور، بلندشہر، الور، جے پور، اجمیر، ماروارڈ، اور دوارکا سمیت متعدد شہروں میں اہتمام کے ساتھ دیکھا گیا۔
گہنائے ہوئے سورج کو دیکھنے میں دنیا بھر کے لوگوں نے نہ صرف خاص دلچسپی لی بلکہ کئی ایک نے تو اس کے لئے خاص اہتمام بھی کئے۔ متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں لوگوں کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے شارجہ سائنس میوزیم میں انتظام کیا گیا ۔ یہاں شائقین کے لئے فلٹرڈ گلاسز یعنی خاص قسم کے چشمے رکھے گئے تھے ۔ اس کے علاوہ محفوظ طریقے سے سورج گرہن کا نظارہ کرنے کے لئے ہاتھ سے تیار کردہ مخصوص طریقے کے آئینے بھی لوگوں کی دلچسپی کا ساماں تھے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے آج یہاں سے سورج کو گہن لگتے دیکھااور محظوظ ہوئے۔
کراچی میں سورج گرہین دن دو بجکر پنتالیس منٹ پر اپنی عروج پر پہنچتے ہی ساحل سمندر پر لوگوں کا رش بڑھ گیا جو اپنے بچوں کو ریت میں دبانے کیلئے آئے تھے ، ان افراد میں نہ صرف کراچی بلکہ دیگر شہروں سے لوگ بھی موجود تھے ۔، اس موقع پر ہر عمر کے بچے ریت میں دبے نظر آئے ،لوگوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سے بچوں کی ذہنی و جسمانی معذوری دور کی جا سکتی ہے ۔
لوگوں کا کہنا تھا کہ جب انہیں کوئی طبی سہولت فراہم نہیں کی جاتی تو اور کیا کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی ہی ایک خاتون جو اپنے تین پوتوں سات سالہ نبیل ، چار سالہ قمبر اور ڈھائی سالہ ننھی مہر کے ہمراہ ساحل پر موجود تھیں ،انہوں نے بتایا کہ نبیل کا چھ سال تک جناح اور سول اسپتال سے علاج کروایا گیا لیکن کوئی آفاقہ نہیں ہوا لہذا دو برس پہلے انہوں نے ٹی وی پر دیکھا کہ بعض لوگ اپنے بچوں کو ساحل پر ریت میں دبا رہے ہیں لہذا نہوں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ یہ طریقہ اپنایا جائے۔ اس سے قبل دو مرتبہ پہلے بھی وہ نبیل کو ریت میں دباچکی ہیں۔ ان کے بقول انہیں بہتری نظر آئی لہذا آج پھر وہ اسے لیکر آئی تھیں ۔
انہوں نے بتایا کہ نبیل کا باپ مزدور ہے ، وہ بلوچستان کے علاقے پسنی کے رہائشی ہیں اور یہاں عارضی طور پر کراچی کے علاقے کورنگی میں مقیم ہیں۔ان کے پاس علاج کرانے کا خرچہ نہیں ۔ حکومت کی جانب سے ایسے افراد کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور ہم مستقبل میں اپنے بچوں کو بھیک مانگتا نہیں دیکھنا چاہتے لہذا مجبوراً آخری امید کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں ۔
نبیل کے چچازاد بہن بھائی ،قمبر اور مہر کو بھی اس کے پاس گڑھے کھود کر آدھا ریت میں دبایا گیا تھا ۔ یہاں اور بھی بہت سے گڑھے کھودے گئے تھے اور سب پانی سے بھرے تھے ، پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہاں تین انچ کی گہرانی پر سمندر کا پانی ہے لہذا پانی آنے کے بعد یہاں بچوں کو نہیں دبایا گیا ۔ بچے سردی سے کانپ رہے تھے اور انہیں شدید بخار بھی تھااور کھانسی بھی تاہم ان کی دادی کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ سردپانی بچوں کے لئے خطرناک ہے لیکن وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایسا کر رہی ہیں ۔ دادی کا موقف ہے کہ یہ ایک کار ثواب ہے اور بچوں کیلئے بہتر بھی ۔
سورج گرہن کے حوالے سے یہ توہم پرستی بھی ہے کہ حاملہ خواتین کودوران گرہن کوئی کام بھی نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ اگرکوئی عورت چھری سے کوئی چیز کاٹتی ہے تواس سے ہونے والے بچے کے اعضاء بھی کٹ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر معاشروں میں گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ ان کے بچے پیدائشی نقص بچ سکیں۔
گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کی ہیت پر اثر پڑسکتا ہے۔بعض معاشروں میں گرہن کے وقت ضعیف العتقاد افراد خودکو کمروں میں بند کرلیتے ہیں تاکہ بقول ان کے وہ گرہن کے وقت خارج ہونے والی نقصان دہ لہروں سے بچ سکیں۔بعض معاشروں میں گرہن کے وقت مقدس دریا میں غسل کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ بعض معاشروں میں جس دن گرہن لگتا ہے، اس دن اکثر لوگ کھانا پکانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گرہن کے وقت خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔
بھارت، چین اورکئی جنوب مشرقی ملکوں میں علم نجوم کے ماہرین سورج گرہن سے منسلک پیش گوئیاں کرتے ہیں جن میں کسی تباہی یا نقصان کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ اس بار علم نجوم کے ماہرین نے اہم سیاسی شخصیات کے قتل اور بڑے پیمانے پر معاشرتی پریشانیوں کی پیش گوئیاں کی تھیں۔
توہمات مختلف النوع صورتوں میں ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کی زحمت کم ہی کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں بھی ایسے توہمات مضبوطی سے کچھ لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔سورج گرہن کی سائنسی حقیقت یہ ہے کہ گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا سایہ زمین پرپڑتا ہے۔
چاند کی طرح ہمارے نظام شمسی کے کئی دوسرے سیارے مثلاً مریخ اور زہرہ بھی اپنی گردش کے دوران زمین اور سورج کے درمیان آجاتے ہیں لیکن چونکہ وہ زمین سے کروڑوں میل کی مسافت پر ہیں ، اس لیے ان کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا۔ دوسری جانب چاند، سورج کی نسبت زمین سے 400 گنا زیادہ قریب ہے ، اس لیے سورج کے مقابلے میں بے پناہ چھوٹا ہونے کے باوجود وہ تقریباً سورج جتنا ہی دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ زمین اور سورج کے درمیان آتا ہے تو زمین کے کچھ حصوں پر اس کا سایہ پڑتا ہے۔
ماہرین فلکیات کے مطابق اس سال سورج کو چار مرتبہ گہن لگے گا۔ دوسرا گہن یکم جون کو، تیسرا یکم جولائی، پچیس نومبر جبکہ سال کا پانچواں اور آخری گہن 10 دسمبر کو لگے گا ۔