پاکستان میں جہاں ان دنوں مختلف صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا مہم چل رہی ہے وہیں سب سے بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ کم سے کم تین سرگرم صحافیوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹس خود غیر فعال کر دیے ہیں۔
جیو نیوز سے وابستہ صحافی وجیہ ثانی، اعزاز سید اور انگریزی اخبار دی نیوز کے سینیئر رپورٹر عمر چیمہ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس غیر فعال کر دیے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جنگ گروپ سے وابستہ یہ تینوں صحافی موجودہ حکومت کے سخت ناقد ہیں جس کا اظہار ان کی سوشل میڈیا پوسٹ سے کیا جا سکتا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق انتظامیہ کی ہدایت کے بعد تینوں صحافیوں نے اپنے اکاؤنٹ غیر فعال کر دیے ہیں، کیونکہ بعض حلقوں کی جانب سے ’جیو کو بند کرنے کی دھمکی‘ دی گئی تھی جس کے بعد انتظامیہ نے کہا کہ فی الحال ’خاموش‘ رہیں۔
اعزاز سید، وجیہ ثانی اور عمر چیمہ کے ٹوئٹر پر بڑی تعداد میں فالورز ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی حلقوں کا کہنا ہے ان صحافیوں کی جانب سے ٹوئٹر پر خاموشی کی وجہ بھی سینسر شپ ہے جس کا اطلاق ان دنوں پاکستانی میڈیا پر ہو رہا ہے۔
صحافی وسیم عباسی کا کہنا ہے کہ ’عمر چیمہ، اعزاز سید اور وجیہ ثانی نے تحفظات اور بڑھتی ہوئی سینسرشپ پر اچانک ٹوئٹر اکاؤنٹس غیر فعال کر دیے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم کے ذریعے سینئر صحافیوں کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاریوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ صحافتی تنظیموں نے اس مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے پیچھے کار فرما عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
#ArrestAntiPakJournalists اور #لفاٖوں-کو-بھی-اندر-کرو کے ہیش ٹیگز ٹوئٹرپر ٹرینڈز کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے نجی ادارے ڈیجیٹل رائٹس مانیٹر کے مطابق اس ہیش ٹیگ کو چلانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو کہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے حامی ہیں اور ماضی میں حکومتی جماعت کے حق میں سوشل میڈیا مہم چلاتے رہے ہیں۔
دوسری جانب فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور منفی ٹرینڈز بنانے سے غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کسی ادارے، فرد اور پیشہ ور شخص کو نشانہ بنانے کے لیے دیے گئے بیان یا ٹرینڈ غیر اخلاقی ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف ٹرینڈ اس کی تازہ مثال ہے۔
پاکستان میں ان دنوں میڈیا سیلف سینسر شپ کی زد میں ہے اور ایسے میں سوشل میڈیا پر صحافیوں سمیت دیگر حلقوں سے وابستہ افراد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، لیکن عمومی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور حکومت کے خلاف تنقید کرنے والے افراد کو ٹرول کیا جاتا ہے۔