امریکہ کی چھ ریاستوں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نظرثانی شدہ انتظامی حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، جس کے تحت چھ مسلمان اکثریتی ملکوں پر سفری پابندی لگائی گئی ہے۔
ریاستِ ہوائی نے پہلے ہی عدالت سے رجوع کیا ہے جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیا وفاقی حکم نامہ پیسیفک کے جزیرے میں واقع اِس ریاست میں مقیم مسلمانوں کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔
پانچ دیگر ریاستوں نے مشترکہ قانونی چارہ جوئی کا راستہ اپنایا ہے، جس کے ذریعے ٹرمپ کے تازہ ترین حکم نامے کو چیلنج کیا گیا ہے، جس کا مقصد امریکی عدالتوں کی جانب سے مسترد کردہ پچھلے حکم نامے کی جگہ لینا ہے۔
مغربی ساحل پر واقع واشنگٹن کی ریاست نے، جس نے پہلے صدارتی حکم نامے کے خلاف آواز بلند کرنے میں سرکردہ کردار ادا کیا تھا، سیاٹل کے وفاقی جج سے استدعا کی ہے کہ وائٹ ہاؤس نے 27 جنوری کے ٹرمپ کے مسترد ہونے والے حکم نامے کا دوبارہ اجرا کیا ہے۔
قانونی چارہ جوئی کے معاملے پر، اوریگن، منی سوٹا اور نیویارک کی ریاستیں واشنگٹن کی ریاست سے مل گئی ہیں، جب کہ جمعرات کی شام گئے میساچیوسٹس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اُس ترمیم شدہ استدعا کا حصہ بنے گی جو آئندہ ہفتے درج کرائی جائے گی۔
ریاستِ واشنگٹن کے اٹارنی جنرل، بوب فرگوسن نے کہا ہے کہ ریاستوں کے پاس ٹھوس قانونی دلیل موجود ہے۔ صدر کا نیا امیگریشن حکم نامہ اصل کے مقابلے میں ’’محدود‘‘ نوعیت کا ہے۔ لیکن، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس سے اُس میں حائل آئینی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
نیا حکم نامہ 16 مارچ سے نافذ العمل
ٹرمپ نے پیر کو نئے انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے، جن میں ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے چھ ممالک شامل ہیں، جہاں کے شہریوں پر تین ماہ کے لیے امریکہ آمد پر بندش ہوگی، جب کہ امریکہ کا مہاجرین کی دوبارہ آبادکاری کا پروگرام چار ماہ تک معطل رہے گا۔
بیرونی سیاح جنھیں 22 جنوری سے قبل امریکہ کے ویزے ملے تھے یا جو پہلے ہی قانونی طور پر امریکہ کے مستقل رہائشی ہیں، اُنھیں نئے حکم نامے سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔