بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں یوم عاشور پر بھی کرفیو جیسی پابندیاں برقرار رکھی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وادی کے کسی بھی حصے میں یوم عاشور کے جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
منگل کو مقامی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے یوم عاشور پر جلوس نکالنے کی کوششیں ناکام بنا دیں۔
سرینگر میں وائس آف امریکہ کے نامہ نگار یوسف جمیل کے مطابق مسلح دستوں نے پیر اور منگل کی درمیانی شب کو ہی سرینگر کی چھوٹی بڑی سڑکیں خاردار تاروں کے ذریعے بند کر دیں۔ جب کہ بعض مقامات پر بکتر بند گاڑیاں کھڑی کر کے راستے بند کیے گئے۔ وادی کے گنجان آباد علاقوں میں بھی پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اہل کار پابندیوں پر عمل درآمد یقینی بناتے رہے۔
مسلم اکثریتی وادی کشمیر کے دوسرے بڑے اور اہم شہروں میں بھی کم و پیش یہی صورتِ حال رہی۔ خاص طور پر اُن علاقوں کی مکمل ناکہ بندی کی گئی ہے جہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔
پہلی بار مکمل پابندی عائد کی گئی
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہونے پر 1989 میں محرم کے مہینے میں تعزیے اور جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ بھارتی حکام نے اس وقت اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شر پسند عناصر ان جلوسوں کی آڑ میں بھارت مخالف سرگرمیاں کر سکتے ہیں۔
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ مشروط اجازت حاصل تھی کہ وہ اپنے علاقوں میں جلوس نکال سکتے ہیں۔ لیکن اس بار انہیں بھی اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
زندگی مفلوج، کاروباری سرگرمیاں معطل
بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد سے یہاں صورتحال معمول پر نہیں آ سکی۔
وادی میں گزشتہ 37 روز سے کاروبار زندگی مفلوج ہے جب کہ لوگوں کی نقل و حمل پر بھی مکمل پابندی عائد ہے۔ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند ہے۔ بعض علاقوں میں سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔
اہم رہنما تاحال نظر بند
پانچ اگست کے بعد سے نا صرف حریت پسند رہنما بلکہ بھارت نواز قائدین بھی یا تو زیر حراست ہیں یا انہیں گھروں میں نظر بند کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے گئے درجنوں افراد میں سیاسی کارکن، وکلاء، تاجر تنظیموں کے نمائندے اور سول سوسائٹی کے اراکین بھی شامل ہیں۔ جموں و کشمیر کی پولیس پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے سیکڑوں نوجوانوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔
گزشتہ پانچ ہفتے کے دوران جموں و کشمیر کے مختلف علاقے سے پابندیوں کو مرحلہ وار ہٹایا بھی گیا ہے۔ تاہم سرینگر کے پرانے شہر کی لگ بھگ سات لاکھ آبادی 37 روز سے مسلسل پابندیوں کی زد میں ہے۔