رسائی کے لنکس

گلگت بلتستان: 'ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود لوگ قرنطینہ میں ہیں'


پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح گلگت بلتستان ميں بھی مکمل لاک ڈاون ہے۔ یہاں کرونا وائرس کے 187 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ وائرس کے باعث تین افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ جن میں ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی شامل ہیں۔

ترجمان گلگت بلتستان حکومت، فيض اللہ فراق کے مطابق اب تک علاقے ميں 187 کيسز مثبت آئے ہيں جب کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد تين ہے جس ميں دو کا تعلق شعبہ طب سے ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ گلگت بلتستان ميں کرونا وائرس کا سبب ايران سے آئے ہوئے زائرين تھے۔ ان کے مطابق علاقے سے دو ہزار سے زائد افراد زيارتوں کے غرض سے ايران گئے۔

اُن کے بقول اسکريننگ ميں کافی وقت لگا کيوں کہ شروع ميں ٹيسٹنگ کی اتنی زیادہ سہولیات نہیں تھیں۔ ابھی بھی مزید 70 زائرین نے ایران سے واپس آنا ہے۔

فيض اللہ فراق کے مطابق زائرين ميں سے 945 افراد سے متعلق شبہ تھا کہ وہ کرونا وائرس کے مریض ہو سکتے ہیں۔ انہيں حکام نے قرنطينہ ميں رکھا تاکہ مہلک وائرس دوسرے علاقوں ميں نہ پھيل سکے۔

حکام کے مطابق گلگت بلتستان کے تين علاقوں گلگت، اسکردو اور نگر کے نجی ہوٹلوں میں سرکاری خرچ پر قرنطینہ کی سہولیات دی جا رہی ہیں۔

ترجمان کے مطابق تمام مشتبہ افراد کو الگ الگ کمروں ميں رکھا جاتا ہے جہاں ان کی خوراک اور دوائيوں کا خاص خيال رکھا جا رہا ہے۔ ایسی خوارک دی جا رہی ہے جو قوت مدافعت میں اضافہ کرے۔

فیض اللہ فراق، ترجمان گلگت بلتستان حکومت
فیض اللہ فراق، ترجمان گلگت بلتستان حکومت

فيض اللہ فراق نے واضح کيا کہ گلگت بلتستان حکومت نے تاحال اپنے ہی بجٹ ميں سے 30 کروڑ کی رقم کرونا وائرس کے لے مختص کی ہے۔ اور مزید رقم کی ضرورت پڑنے پر وفاقی حکومت سے بھی رجوع کر سکتے ہيں۔

انہوں نے بتايا کہ اس فنڈ ميں سے 15 کروڑ مستحقین میں راشن کی تقسیم جب کہ باقی ماندہ 15 کروڑ قرنطینہ میں موجود افراد کی دیکھ بھال پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔

گلگت بلتستان 10 اضلاع پر مشتمل ہے۔ حاليہ مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 15 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سب سے زيادہ متاثرہ علاقوں ميں ضلع نگر اور بلتستان ڈويژن ہيں۔

ترجمان کے مطابق گلگت بلتستان ميں کرونا کے حوالے سے ٹيسٹنگ ليبارٹری کا اب بھی مسئلہ ہے۔ شروع میں تو ٹیسٹنگ کٹس ہی دستیاب نہیں تھیں۔ البتہ اب حالات قدرے بہتر ہیں اور روزانہ 20 سے 25 ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

گلگت بلتسان میں بھی حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔
گلگت بلتسان میں بھی حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔

ترجمان کے بقول شروع میں ایک ٹیسٹ کے لیے ایک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ کیوں کہ نمونے اسلام آباد بھجوائے جاتے تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگوں میں خوف و ہراس نہیں لیکن وہ گھروں میں بیٹھ کر تنگ آ چکے ہیں۔

مقامی صحافی جميل نگری کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت نے شروع ميں کرونا وائرس کی صورتِ حال کو سنجيدگی سے ليا ہی نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ تقريباً تمام زائرين اپنے اپنے علاقوں ميں بغير اسکريننگ کے لوگوں میں گھل مل گئے۔

انہوں نے واضح کيا کہ انتظاميہ بعد میں زائرین کو گھروں سے لائی، لیکن تب تک وہ مقامی سطح پر وائرس کافی لوگوں میں منتقل کر چکے تھے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے جميل نگری نے بتايا کہ کرونا وائرس سے گلگت بلتستان میں ہلاک ہونے والوں میں سے دو افراد کا تعلق طب کے شعبے سے ہے۔ ان کے مطابق ڈاکٹروں کے پاس ابھی بھی مکمل کٹس نہيں ہيں۔ حکومتی تعداد کے مقابلے ميں متاثرہ لوگوں کی اصل تعداد کافی زيادہ ہے۔

ڈاکٹر کريم امان گلگت بلتستان کے دنيور کرونا آئسوليشن سینٹر ميں بطور ميڈيکل آفيسر تعينات ہيں۔ وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ 30 بستروں پر مشتمل وارڈ ميں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے بہترین انتظامات کیے گئے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ مريضوں کی خوراک کا بطور خاص خيال رکھا جاتا ہے اور تين وقت کھانے کے علاوہ وٹامن سی سے متعلق ادویات بھی دی جا رہی ہیں۔

لیکن ایک مقامی صحافی عبدالرحمان بخاری ڈاکٹر کريم کے اس دعوے سے اتفاق نہيں کرتے۔ ان کے مطابق حکومت نے کرونا کے مریضوں کو مہنگے ہوٹلوں میں رکھا ہوا ہے جب کہ تمام اسکولوں اور کالجز کی عمارتیں خالی پڑی ہیں۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ ايران سے لائے گئے زائرين کو گلگت کے کيپیٹل لاج ميں رکھا گیا ہے اور وہاں موجود زائرین نے اُنہیں ویڈیو کال کے ذریعے ناقص انتظامات کا گلہ کیا ہے۔

انھوں نے واضح کيا کہ قرنطینہ سينٹر کے مريضوں کے مطابق وہاں ڈاکٹروں کی کوئی سہولت نہيں ہے۔ دل کے ایک مريض کی گزشتہ کئی دنوں سے دوائياں ختم ہيں۔

اُن کے بقول زائرین 14 دن قرنطینہ میں گزار چکے ہیں، اُن کے ٹیسٹ بھی منفی آ چکے ہیں۔ لیکن انتظامیہ اُنہیں ڈسچارج نہیں کر رہی۔

XS
SM
MD
LG