صدر ٹرمپ نے جی سیون اجلاس کے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کینڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ گروپ میں یہ اختلافات کم از کم صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں تو جاری رہیں گے اور حالات مستقبل میں ایک ٹریڈ وار یا تجارتی جنگ کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری نے پیرس یونیورسٹی کے ڈاکٹر عطا محمد، شکاگو یونیورسٹی کے ظفر بخاری اور کینیڈا کی رائرسن یونیورسٹی کے مرتضیٰ حیدر سے اس بارے میں گفتگو کی۔
ڈاکٹر عطاء محمد کا کہنا تھا کہ اختلافات اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ایک جانب امریکہ ہے اور دوسری جانب یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ کھڑی ہے اور صورت حال آئندہ دنوں میں شروع ہونے والی تجارتی جنگ کی جانب اشارہ کررہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے امریکہ کی جانب سے روس کو گروپ میں لانے کی وکالت کی جارہی ہے۔ جسے کرائمیا پر قبضے کی پاداش میں گروپ سے نکال دیا گیا تھا۔ یورپی یونین اس سے قطعی متفق نہیں ہے اور اس کا موقف ہے کہ جب تک یوکرین کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اس بارے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن یا ڈبلیو ٹی او کے لئے بھی خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔
پروفیسر ظفر بخاری کا کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر اور یورپی رہنماؤں کے درمیان اختلافات تجارت اور محصولات کے علاوہ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے بارے میں بھی ہیں اور صدر ٹرمپ محسوس کرتے ہیں کہ روس کو گروپ میں واپس لانے کے ان کے موقف کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
مرتضیٰ حیدر نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم ٹروڈو پر جو تنقید کی ہے، کینیڈا نے ابھی تک اس کا سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ مگر کینیڈا کے لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے کیونکہ وہ اس قسم کی سفارتکاری کے عادی ہو چکے ہیں۔
ماہرین سے قمر عباس جعفری کی گفتگو کی ریکارڈنگ سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں: