کراچی میں پچھلے دو دنوں سے سی این جی کی غیر اعلانیہ ہڑتال جاری ہے۔ ہفتے کی صبح نو بجے سے اتوار کی صبح نو بجے تک شہر کے تمام سی این جی اسٹیشن ہفتہ وار لوڈ شیڈنگ کے سبب بند تھے۔ لیکن، مقررہ وقت ختم ہوجانے کے باوجود اتوار اور پیر کو شہر کے بیشتر سی این جی اسٹیشنز بند رہے ۔
اس غیر اعلانیہ ہڑتال کے سبب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو لوگ کسی سبب ہفتے کی صبح مقررہ وقت تک اپنی گاڑیوں میں سی این جی نہیں بھرواسکے تھے وہ اتوار اور پیر کو بھی اپنی گاڑیاں نہیں نکال سکے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سی این جی کی قیمت میں31روپے کمی کا حکم جاری کیا تھا۔ پہلے ایک دو دن تک تو گیس اسٹیشن مالکان کم قیمتوں پر گیس فروخت کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوئے اور نوٹیفکیشن نہ ملنے کا بہانہ کرتے رہے جس پر اوگرا کی جانب سے یہ سخت اعلان آیا کہ جس اسٹیشن کو بند پایا گیا اس کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔
اس اقدام کے بعد ایک دو دن تک گیس اسٹیشن معمول کے مطابق کھلے رہے تاہم اتوار اور پیر کو شہر کے بیشتر گیس اسٹیشنز غیر اعلانیہ ہڑتال پر رہے جبکہ جو اکا دکا اسٹیشنز کھلے وہاں دن بھر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی رہیں۔
مین یورنیورسٹی روڈ گلشن اقبال پر واقع ایک گیس اسٹیشن پر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے محمد علی سید کا وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں کہنا تھا ”سی این جی مافیا عدالتی فیصلے کے ثمرات سے عوام کو محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ انہیں کسی صورت یہ منظور نہیں کہ اس کا منافع کم ہو۔ 31روپے سے زیادہ کی کمی ایک ریکارڈ ہے ۔ زیادہ قیمت پر گیس بیچنے والے منافع خوروں کے’منہ کو خون لگ گیا ہے ، وہ بھلا کسی طرح خاموش بیٹھیں گے‘۔
عزیزآباد کے ایک رہائشی ذاکر کا کہنا ہے کہ’گیس کی غیر اعلانیہ لود شیڈنگ، گیس اسٹیشن مالکان کا ہتھکنڈہ ہے، حکومت کو دباوٴ میں نہیں آنا چاہئیے‘۔
کراچی کے علاوہ اسلام آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ سمیت دیگر بڑے شہروں سےبھی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی اطلاعات ہیں۔ ہڑتال کے سبب بڑے شہروں اور خاص کر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والے مسافروں کو سخت مشکلات درپیش ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں سی این جی اسٹیشنز تین دن کی بندش کےبعد آج کھلے تو گاڑیوں کا رش لگ گیا۔ کوئٹہ میں سی این جی کی شدید قلت رہی۔ شہر کے گیارہ میں سے صرف تین سی این جی اسٹیشن پر ہی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر عبدالسمیع کا کہنا ہے کہ ’کراچی کے 80 فی صد سی این جی اسٹیشن ،مالکان نے خود بند کیے ہیں کیونکہ وہ نقصان پر گیس فروخت کرنا نہیں چاہتے‘۔ مگر صارفین اس موقف سے اتفاق نہیں رکھتے۔
تیسری جانب جب مختلف سی این جی اسٹیشن مالکان سے ان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو سب کا دو ٹوک الفاظ میں یہی کہنا تھا کہ وہ نئی قیمتوں پر کاروبار نہیں کرسکتے۔مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے ۔
اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ سی این جی کی غیراعلانیہ ہڑتال آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔ اربابِ اختیار کو اِس سلسلے میں جلد اہم اور بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔
اس غیر اعلانیہ ہڑتال کے سبب عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جو لوگ کسی سبب ہفتے کی صبح مقررہ وقت تک اپنی گاڑیوں میں سی این جی نہیں بھرواسکے تھے وہ اتوار اور پیر کو بھی اپنی گاڑیاں نہیں نکال سکے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سی این جی کی قیمت میں31روپے کمی کا حکم جاری کیا تھا۔ پہلے ایک دو دن تک تو گیس اسٹیشن مالکان کم قیمتوں پر گیس فروخت کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوئے اور نوٹیفکیشن نہ ملنے کا بہانہ کرتے رہے جس پر اوگرا کی جانب سے یہ سخت اعلان آیا کہ جس اسٹیشن کو بند پایا گیا اس کا کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔
اس اقدام کے بعد ایک دو دن تک گیس اسٹیشن معمول کے مطابق کھلے رہے تاہم اتوار اور پیر کو شہر کے بیشتر گیس اسٹیشنز غیر اعلانیہ ہڑتال پر رہے جبکہ جو اکا دکا اسٹیشنز کھلے وہاں دن بھر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی رہیں۔
مین یورنیورسٹی روڈ گلشن اقبال پر واقع ایک گیس اسٹیشن پر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے محمد علی سید کا وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال میں کہنا تھا ”سی این جی مافیا عدالتی فیصلے کے ثمرات سے عوام کو محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ انہیں کسی صورت یہ منظور نہیں کہ اس کا منافع کم ہو۔ 31روپے سے زیادہ کی کمی ایک ریکارڈ ہے ۔ زیادہ قیمت پر گیس بیچنے والے منافع خوروں کے’منہ کو خون لگ گیا ہے ، وہ بھلا کسی طرح خاموش بیٹھیں گے‘۔
عزیزآباد کے ایک رہائشی ذاکر کا کہنا ہے کہ’گیس کی غیر اعلانیہ لود شیڈنگ، گیس اسٹیشن مالکان کا ہتھکنڈہ ہے، حکومت کو دباوٴ میں نہیں آنا چاہئیے‘۔
کراچی کے علاوہ اسلام آباد، راولپنڈی اور کوئٹہ سمیت دیگر بڑے شہروں سےبھی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی اطلاعات ہیں۔ ہڑتال کے سبب بڑے شہروں اور خاص کر ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والے مسافروں کو سخت مشکلات درپیش ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں سی این جی اسٹیشنز تین دن کی بندش کےبعد آج کھلے تو گاڑیوں کا رش لگ گیا۔ کوئٹہ میں سی این جی کی شدید قلت رہی۔ شہر کے گیارہ میں سے صرف تین سی این جی اسٹیشن پر ہی گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر عبدالسمیع کا کہنا ہے کہ ’کراچی کے 80 فی صد سی این جی اسٹیشن ،مالکان نے خود بند کیے ہیں کیونکہ وہ نقصان پر گیس فروخت کرنا نہیں چاہتے‘۔ مگر صارفین اس موقف سے اتفاق نہیں رکھتے۔
تیسری جانب جب مختلف سی این جی اسٹیشن مالکان سے ان کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا گیا تو سب کا دو ٹوک الفاظ میں یہی کہنا تھا کہ وہ نئی قیمتوں پر کاروبار نہیں کرسکتے۔مالکان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے ۔
اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ سی این جی کی غیراعلانیہ ہڑتال آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔ اربابِ اختیار کو اِس سلسلے میں جلد اہم اور بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔