رسائی کے لنکس

واشنگٹن کےسلور ڈاکس فلم فیسٹیول میں سماجی انصاف پر دستاویزی فلمیں


واشنگٹن کےسلور ڈاکس فلم فیسٹیول میں سماجی انصاف پر دستاویزی فلمیں
واشنگٹن کےسلور ڈاکس فلم فیسٹیول میں سماجی انصاف پر دستاویزی فلمیں

واشنگٹن کے مضافات میں ہر سال Silverdocs کے نام سے ایک فلمی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے دستاویزی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ اس سال فیسٹول میں ایک سو سے زیادہ فلمیں شامل ہیں جن کا انتخاب دوہزار سے زیادہ انٹریز میں سے کیا گیا تھا۔اس سال نمائش میں رکھی جانے والی دستاویزی فلموں کا نمایاں پہلو یہ ہے ان میں سے اکثر کا موضوع سماجی انصاف ہے۔

اس سال فلمی میلے میں پچاس ممالک کی 108 سے زیادہ دستاویزی فلمیں پیش کی جارہی ہیں۔اس سال پیش کی جانے والی کئی فلموں کا نمایاں پہلو سماجی انصاف کی تلاش تھا۔

فلمی میلے کی ڈائریکٹر سکائی سٹنی کا کہناہے کہ انہوں نے اسے سماجی انصاف کو اپنا تھیم بنانے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ اکثر فلموں میں اسی مسئلے کو موضوع بنایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تعجب خیز ہے کہ اب دستاویزی فلمساز اپنے ارد گرد ہونےو الی سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کے لئے دستاویزی فلم بنانے کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور و ہ کیوں سوچنے لگے ہیں کہ ان کا کام سماجی انصاف کے نظام میں تبدیلی بھی لا سکتا ہے ۔

فلم Give Up Tomorrow کے فلم ساز مائیکل کولز اور مارٹی سیجو کو نے ایک نوعمر لڑکے پاکو کے مقدمے کو موضوع بنایا ہے جس پر ان پر دوبہنوں سے زیادتی اور قتل کا الزام ہے جو1997ء میں فلپائن کے جزیرے سیبو میں لا پتہ ہو گئی تھیں ۔پاکو کے حق میں متعدد شواہد کے باوجود اسے سزائے موت سنائی گئی اور وہ چودہ سال بعد بھی اب تک جیل میں ہے ۔

یہ فلم فلپائن کے نظام عدل میں پائی جانے والی بدعنوانی اور میڈیا کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہے، جس نے ملزم سے اعتراف جرم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مارٹی کا کہناہے کہ انہوں نے یہ فلم اس لیے بنائی کہ ناانصافی کا یہ معاملہ ان کے لئے ذاتی اہمیت رکھتا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی نے پاکو کی بہن سے شادی کی تھی اور جب پاکو کو پکڑا گیاتو ہم جانتے تھے کہ یقیناً کوئی غلطی ہوئی ہے کیونکہ جب آپ فلم دیکھتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ واردات کے وقت وہ اس مقام سے سینکڑوں میل دور ایک دوسرے جزیرے پر تھا اور اس کے لیے یہ جرم کرنا ممکن نہیں تھا۔ پھر بھی جب سپریم کورٹ نے اس کی سزائے موت کی توثیق کی تو ہم حیران رہ گئے۔

فلم Scenes of a Crime کے فلم سازوں گروور بابکاک اور بلیو ہاڈےنے اپنی فلم میں تفتیش کے طریقوں کو موضوع بنایا ہے۔ان کی فلم ایک امریکی ایڈرین ٹامس کے خلاف کی جانے والی تحقیقات پر مبنی ہے ۔ جس پر اپنے نوزائیدہ بچے کو ہلاک کرنے کاشبہ تھا۔ ۔ میڈیکل شواہد سے اس کی بےگناہی ثابت ہونے کے باوجود کئی گھنٹوں کی سخت تفتیش کے بعد اس سے جرم قبول کروا لیاجاتا ہے۔

فلم ساز بابکاک کا کہناہے کہ جب ہم نے فلم کا پراجیکٹ شروع کیا تو ہم اس تفتیش کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن جلد ہی ہمیں یہ پتا چل گیا کہ یہ تفتیش ہے کیا۔ تفتیش کے دوران ایڈرن ٹامس کے ساتھ جو طریقہ کار اختیار کیا گیاتھا وہ درحقیقت تفتیشی طریقہ نہیں ، اس کا مقصد اعتراف جرم کروانا تھا۔

بلیوہاڈے کہناہے کہ امریکہ کے کچھ علاقوں میں تفتیش کار جرم کا اعتراف کرانے کے لیے سخت حربے استعمال کرتے ہیں ، چاہے انہیں معلوم ہو کہ مشتبہ شخص مجرم نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سچ تک پہنچنے کے لیے وہ نفسیاتی طریقے استعمال کرتے ہیں اور بہت سے مجرموں پر یہ طریقہ کار گر ثابت ہوتا ہے ، لیکن ہمیں اصل میں جس بات کا پتہ چلا، وہ یہ تھی کہ وہ طریقہ ان لوگوں پر بھی کار گر ہوتا ہے جنہوں نے کچھ بھی نہ کیا ہو۔

فلم "If A Tree Falls," میں مارشل کری ایک انتہا پسند گروپ ،ارتھ لبریشن فرنٹ ، کو پیش آنے والے نشیب و فراز دکھارہے ہیں ، جو اپنا پیغام پھیلانے کے لیے کمپنی کی املاک کو تباہ کر دیتا ہے۔ فلم میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا وہ انتہا پسند جو کرہ ارض کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ آزادی کے سپاہی ہیں یا دہشت گرد۔

میلے کی ڈائریکٹر، سکائی سٹنی کہتی ہیں کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ فلم دیکھنے کے بعد لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم ان معلومات کا کیا کرتے ہیں، اُس برہمی کا اور دنیا کے بارے میں ایک نئے احساس کا ہم پر کیا اثر ہوتا ہے اور ان فلموں کو جوش وخروش پیدا کرنے کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم زیادہ فعال شہری بنیں ۔اور ان مخصوص مسائل پر توجہ دیں جو ہمارے لئے انتہائی اہم ہوں ۔

اس سال کی فلموں کا مقصد جوش و خروش ابھارناہے، معلومات کی فراہمی ہے یا پھر محض تفریح ۔ تاہم ان میں ہر فلم بین کے لیے کچھ نہ کچھ موجود ہے ۔

XS
SM
MD
LG