رسائی کے لنکس

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ: امریکی قومی سلامتی کو در پیش خطرات میں اضافے کا اندیشہ


امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پینسلوینیا میں قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے جس میں وہ زخمی ہوئے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پینسلوینیا میں قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے جس میں وہ زخمی ہوئے ہیں۔
  • سابق صدر ٹرمپ پر پینسلوینیا میں قاتلانہ حملے کے بعد نیویارک میں بھی سیکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
  • جنوری 2021 میں کیپٹل ہل پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی کے بعد سیاسی تشدد کا معاملہ امریکہ میں تشویش کا باعث رہا ہے۔
  • ہوم لینڈ سیکیورٹی نے حالیہ جائزوں میں سیاسی تشدد میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے تھے۔
  • مقامی دہشت گردی کا خطرہ مستقل ہے اور یہ بہت سنگین ہے: ڈائریکٹر ایف بی آئی کرسٹوفر رے

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد امریکی قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر توجہ مرکوز ہو گئی ہے اور مختلف ریاستوں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کر رہے ہیں۔

نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز نے حملے کے بعد اعلان کیا ہے کہ اُنہوں نے نیویارک کے کچھ مخصوص مقامات پر پولیس کی نفری بڑھا دی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایڈمز کا کہنا تھا کہ جو کچھ پینسلوینیا میں ہوا وہ ہولناک تھا۔ سیاسی تشدد کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

سابق صدر ٹرمپ پر ہفتے کو پینسلوینیا میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران فائرنگ کی گئی تھی۔

گولی سابق صدر کے کان سے چھو کر گزر گئی تھی جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔ حملے کے دوران حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔

ایف بی آئی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ پر حملہ کرنے والے نوجوان کا نام میتھیو کروکس ہے اور اس کی عمر 20 برس ہے۔ حملہ آور بیتھل پارک، پینسلوینیا کا رہائشی ہے۔

سیاسی تشدد کے خدشات

جنوری 2021 میں کیپٹل ہل پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی کے بعد سیاسی تشدد کا معاملہ امریکہ میں تشویش کا باعث رہا ہے۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اس حملے کے بعد ایک انتباہ بھی جاری کیا تھا کہ مقامی انتہا پسند افراد کو اس حملے سے مزید حوصلہ ملے گا اور وہ متحرک ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ برس ستمبر میں ہوم لینڈ سیکیورٹی نے ایک اور 'ہائی رسک' انتباہ جاری کیا تھا جس میں انفرادی سطح پر یا ایک چھوٹے گروپ کی صورت میں حملوں کا اشارہ دیا گیا تھا۔

اس وارننگ میں کہا گیا تھا کہ 2024 کا صدارتی الیکشن ان حملوں کی زد میں آ سکتا ہے۔

انتباہ میں کہا گیا تھا کہ سرکاری حکام، ووٹرز اور انتخابات سے متعلقہ افراد یا انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جب کہ پولنگ کے مقامات، بیلٹ ڈراپ باکسز، پارٹی دفاتر، انتخابی مہم اور ووٹوں کی گنتی کے مقامات کو بھی حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔

'یہ حیران کن نہیں ہے'

گلوبل انٹیلی جنس فرم 'دی صوفان گروپ' کے ڈائریکٹر آف ریسرچ کولن کلارک کہتے ہیں کہ "یہ سب کچھ دیکھنا حیران کن نہیں ہے۔"

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "سیاسی میدان کے دونوں طرف تناؤ بڑھ رہا ہے اور انتہا پسندوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں اور آنے والے دن مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔"

ڈائریکٹر ایف بی آئی کرسٹوفر نے جون میں قانون سازوں کو خطرے کی سنگینی سے آگاہ کیا تھا۔

کرسٹوفر نے کہا تھا کہ "مقامی دہشت گردی کا خطرہ مستقل ہے اور یہ بہت سنگین ہے۔"

حکام کی جانب سے روس، چین اور ایران کی جانب سے امریکی سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے سے متعلق وارننگز بھی جاری کی جاتی رہی ہیں۔

ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس آفس کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک جائزے میں کہا گیا تھا کہ روس صدارتی انتخابات سے قبل پائی جانے والی 'مقامی تقسیم' کو مزید بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

جائزے میں تہران پر بھی یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ امریکہ میں پائی جانے والی سیاسی تقسیم کو بڑھانے کے لیے افراتفری پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا مقصد جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل کرنا ہے۔

تفتیش کار اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ آیا ان عوامل کا ہفتے کو ٹرمپ پر ہونے والے حملے کا کتنا اثر ہے۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ غصے کے کسی ایکشن میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

کولن کلارک کہتے ہیں کہ اُنہیں یہ خدشہ ہے کہ سیاسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سے لامحالہ انتخابی مہم پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG