رسائی کے لنکس

شیخ رشید پھر منظرِ عام پر؛ ’گلہ عمران خان سے بھی لیکن اصل شکوہ فوج سے ہے‘


شیخ رشید احمد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ تھے۔ فائل فوٹو
شیخ رشید احمد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ تھے۔ فائل فوٹو

  • شیخ رشید عید کے موقع پر ایک عرصے کے بعد ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے تو وہ اپنے روایتی انداز میں گفتگو کرتے دکھائی دیے۔
  • سابق وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ انہیں عمران خان سے بھی گلہ ہے لیکن اصل شکوہ فوج سے ہے۔
  • سوشل میڈیا پر بعض تبصروں میں شیخ رشید کی باتوں کو اہم انکشافات کہا جا رہا ہے تو بعض اسے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

اسلام آباد—پاکستان کے سینئر سیاست دان اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے طویل عرصے بعد خاموشی توڑی ہے۔

حالیہ ٹی وی انٹرویوز میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان سے متعلق شیخ رشید کی گفتگو کے کئی حصے سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں۔

شیخ رشید عید کے موقعے پر ایک عرصے کے بعد ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوئے تو وہ اپنے روایتی انداز میں گفتگو کرتے دکھائی دیے۔

انہوں نے اپنے انٹرویوز میں کہا ہے کہ وہ مقتدرہ سے اب مزید تعلق رکھنے کے خواہش مند نہیں رہے ہیں اور نہ ہی ان کی اور پی ٹی آئی کی سیاسی راہیں ایک رہی ہیں۔

شیخ رشید کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ سے فوج کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اعلانیہ طور پر خود کو فوج سے منسلک کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی نیوز چینلز دنیا ٹی وی، جی ٹی وی، اے بی ایم اور دیگر کو دیے گئے انٹرویوز میں شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان سے دوستی رکھنا چاہتا ہوں اور چلہ کاٹنے کے باوجود انہوں نے سابق وزیر اعظم کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

یاد رہے کہ 9 مئی کے احتجاجی مظاہروں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں شیخ رشید بھی 40 روز تک لاپتہ رہے جسے وہ ’چلّہ‘ کہتے ہیں۔

گزشتہ سال 17 ستمبر کو شیخ رشید کے بھیجتے راشد شفیق نے کہا تھا کہ ان کے چچا کو ان کے گھر سے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ساتھ لے کر گئے ہیں۔

بعد ازاں 22 اکتوبر کو شیخ رشید اچانک منظرعام پر آئے اور انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ چلّے پر تھے۔ ‘ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’جنرل عاصم منیر کو چھیڑنا ہماری غلطی تھی۔‘

حالیہ انٹرویوز میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ یہ مذاکرات صرف اسی صورت کامیاب ہوں گے جب ادارے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بٹھا کر معاملات حل کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ جب فوج کہے گی کہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کرنے چاہیں تو عمران خان بھی انکار نہیں کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں مذاکرات کا حامی ہوں اور اگر معاملات حل کرنے ہیں تو اس کا آغاز فوج کو کرنا چاہیے۔

اس سوال پر کہ اپنے ساتھ حالیہ برتاؤ پر اصل گلہ فوج سے ہے یا عمران خان سے تو شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان سے بھی گلہ ہے لیکن اصل شکوہ فوج سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کو پرویز الہی، فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے اپنے سیاسی اثاثوں کو زندہ رکھنا چاہیے تھا۔

ایک انٹرویو میں شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ عید کے بعد دو مہینے بہت حساس ہیں اور اگست میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 30 اگست کے بعد عملی سیاست میں جاؤں گا اور کہہ رہا ہوں کہ قربانی کے بعد قربانی ہو گی۔

شیخ رشید نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کو بتا دیا تھا کہ حکومت جا رہی ہے لیکن عمران خان نے کہا کہ ان کے فوج سے تعلقات ٹھیک ہو گئے ہیں۔

سربراہ عوامی مسلم لیگ نے مزید کہا کہ اس میں کوئی کچھ شک نہیں پی ٹی آئی حکومت گرانے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ ملوث تھے۔

عمران خان کے مستقبل سے متعلق سوال پر شیخ رشید نے کہا کہ ابھی تو وہ انہیں جیل میں ہی دیکھ رہے ہیں اور جلدی رہائی کا امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور بیٹی عمران خان کی دوست ہے اور امریکی انتخابات کے بعد شاید کچھ حالات میں کچھ تبدیلی آئے۔

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

شیخ رشید کے انٹرویو پر سوشل میڈیا پر کافی تبصرے کیے جا رہے ہیں جن میں سے بعض ان کی باتوں کو اہم انکشافات جب کہ بعض اسے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

صحافی شاہیں صیہبائی نے شیخ رشید کے انٹرویو پر اپنے ٹوئٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک 70 سالہ سیاست دان کو صرف اس لیے کرین پر چڑھانے کی کوشش کی گئی کہ ان سے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف بیان لیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے سنگین الزامات کا دنیا کو اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو نوٹس لینا چاہیے۔

صحافی صابر شاکر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ شیخ رشید کو عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف تحریر پڑھنے کے لیے دی گئی جس سے انہوں نے انکار کیا۔

صحافی محسن رضا خان نے شیخ رشید کے انٹرویوز پر تبصرہ کیا کہ میرا خیال ہے یہ انٹرویو بھی کمپنی کی مشہوری کے لیے دیا گیا ہو گا کیوں کہ ان کے بقول، تحریکِ انصاف نو مئی جیسا نیا چاند چڑھانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ آدھے لوگ تو اس انٹرویو کے بعد بھاگ جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ نگار سید فراز درویش نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ‏شیخ رشید دعویٰ کر رہے ہیں کہ چلّے کے دوران ان کا 40 کلو وزن کم ہو گیا۔ اگر ان کی پرانی ویڈیوز دیکھی جائیں تو یہ درست معلوم نہیں ہوتا۔

صحافی شاہد میتلا نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ‏اس سے زیادہ سفاکی کیا ہو گی کہ کسی 70 سال کے شخص کو کرین پر الٹا لٹکا دیا جائے۔

اسے توڑنے کے لیے نفسیاتی اور ذہنی تشدد کا استعمال کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے انکشافات نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG