پاکستان میں جب بھی انٹرٹینمنٹ کی بات ہو گی، وہاں مزاحیہ ڈراموں اور اسٹیج شوز کا ذکر ہوگا۔ اس وقت اگر ٹی وی چینلز پر کئی ایسے پروگرام چل رہے ہیں جو لوگوں میں مقبول ہیں تو سوشل میڈیا بھی زیادہ پیچھے نہیں ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق سوشل میڈیا پر مزاح کی ایک نئی قسم پروان چڑھ رہی ہے اور وہ ہے دوسروں کا مذاق اڑا کر وائرل ہوجانے کی۔ البتہ بعض اوقات ایسے واقعات بھی ہو جاتے ہیں جن میں اپنی دانست میں کوئی عمومی کام بھی تنازع کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی کی والدہ انیسہ فاروقی کے ساتھ بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس پر سوشل میڈیا پر کافی تنقید بھی ہو رہی ہے۔
رواں ہفتے ایک شادی کی تقریب میں مشہور اداکارہ اور میزبان نادیہ خان نے شرمیلا فاروقی کی والدہ کے ساتھ ایک ویڈیو بنائی جس میں انہوں نے ان کی ڈریسنگ اور میک اپ کے حوالے سے بات کی۔ البتہ سوشل میڈیا صارفین کو اس گفتگو میں عزت سے زیادہ تضحیک کا پہلو نظر آیا جس کا اظہار انہوں نے سوشل میڈیا پر کیا۔
انیسہ فاروقی کی بیٹی اور رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے اس وائرل ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے نادیہ خان کے خلاف پہلے اپنا ردِ عمل دیا اور پھر بعد میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں درخواست جمع کرائی۔
اداکارہ نادیہ خان نے تنقید کے بعد سوشل میڈیا سے وہ ویڈیو ہٹا کر اس کے بدلے ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں وہ شرمیلا فاروقی کی والدہ سے کی گئی گفتگو کا دفاع کررہی تھیں لیکن ان پر تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔
سوشل میڈیا پر اس قسم کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں ، البتہ جو سوال اس واقعے کے بعد اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا نے جو آزادی اپنے صارفین کو دی ہے وہ اس کا استعمال کرنا جانتے ہیں بھی یا نہیں؟
’مزاح میں انسان کو تہذیب کا دامن تھامے رہنا چاہیے‘
چھ دہائیوں سے پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ ڈرامہ نگار اور شاعر انور مقصود کے ڈرامے اور کامیڈی شوز آج بھی لوگوں کو یاد ہیں البتہ وہ آج کل کے لوگوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
حال ہی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں معروف مزاح نگار انور مقصود کا کہنا تھا کہ مزاح لکھتے وقت انسان کو تہذیب کا دامن تھامے رہنا چاہیے، جہاں مزاح لکھنے والے کا قلم رک جاتا تھا، اب وہیں سے شروع ہوتا ہے۔
مزاح لکھتے وقت انسان بہت سوچ سمجھ کر قلم چلانا چاہیے اگر لکھتے لکھتے قلم کہیں رک جائے، تو بس وہیں ختم کردینا چاہیے۔ اس کے آگے لکھنا نہیں چاہیے کیونکہ وہیں سے تباہی شروع ہوتی ہے۔
معاشرے میں مذاق اڑانے نے مذاق کرنے کی جگہ کب لی؟
ایک وقت تھا جب مزاح کے لیے انور مقصود،حسینہ معین اور کمال احمد رضوی جیسے ڈرامہ لکھنے والوں کا نام ہی ٹی وی پر کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جوں جوں پرائیویٹ چینلز کی تعداد بڑھی، مبصرین کا خٰیال ہے کہ مزاح کا معیار گرتا ہی چلا گیا۔
معروف رائٹر ڈاکٹر یونس بٹ، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں 'فیملی فرنٹ 'جیسا کامیاب سٹ کام لکھ کر پی ٹی وی کو مخالف پرائیوٹ ٹی وی کے سامنے لا کھڑا کیا اور بعد میں 'ہم سب امید سے ہیں' کے ذریعے ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا، وہ آج کل کی کامیڈی کو کامیڈی نہیں سمجھتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس بٹ کا کہنا تھا کہ بظاہر جسے لوگ اب کلچر میں تبدیلی کا نام دیتے ہیں، وہ دراصل کلچر ہی نہیں ہے کسی کی تضحیک کرنا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں۔
ان کے بقول خاص طور پر پاکستان میں جہاں کا مزاح ہمیشہ ہی منفرد اور تہذیب کے دائرے میں رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ'افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں اب جو لوگ کامیڈی کررہے ہیں ان کا مقصد مشہور ہونا، یا پھر ریٹنگ حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ نہ تو انہوں نے انور مقصود اورکمال احمد رضوی جیسے مزاح نگاروں کا کام دیکھا ہوتا ہے اور نہ ہی انہوں نے مشتاق احمد یوسفی کو پڑھا ہوتا ہے۔
کئی مزاحیہ کتابوں کے مصنف اور ٹی وی پر لاتعداد پروگراموں کے خالق ڈاکٹر یونس بٹ سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں جس قسم کی کامیڈی اس وقت ہورہی ہے، اس کی تقلید کے چکر میں پاکستان میں مزاح کا معیار نیچے جارہا ہے۔
یونس بٹ کا مزید کہنا تھا کہ ساری دنیا ہی میں اب 'انسلٹنگ فارم آف کامیڈی 'پروان چڑھ رہا ہے، پہلے جو بات کرنے کا سلیقہ تھا اب وہ نہیں رہا۔ امریکہ اور دیگر ممالک میں جس قسم کے 'روسٹ کامیڈی شوز 'اس وقت چل رہے ہیں۔ ان میں مزاح کرنے کے بجائے لوگوں کی بےعزتی کی جاتی ہے اور اسی قسم کا مذاق اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹریونس بٹ کا کہنا تھا کہ اب ریٹنگ کے لیے کسی کی بےعزتی کرنے کو کامیڈی سمجھا جانے لگا ہے۔ زیادہ تر لوگ تو جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تاکہ محفلوں میں ان پر بات کی جائے اور وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ایسا مزاح ہوا کرتا تھا جس کو سن کر جس شخص کا مذاق اڑتا تھا۔ وہ مسکراتا تھا اور اس کا مخالف قہقہہ لگاتا تھا لیکن اب چوں کہ نئی نسل غلط لوگوں کو دیکھ کر پروان چڑھ رہی ہے اس لیے ان کی کامیڈی بھی اسی طرح کی ہی ہے۔
’جو مذاق اور تذلیل میں فرق سمجھے گا، کامیاب بھی وہی ہوگا‘
دانش نواز مزاحیہ اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ہدایت کار بھی ہیں جو سنجیدہ اور کامیڈی دونوں ڈرامے بناتے ہیں۔ گزشتہ سال اگر ان کے ڈرامہ 'چپکے چپکے' نے ناظرین کو ہنسایا تو اس وقت ان کا سنجیدہ ڈرامہ 'دوبارہ' لوگوں کو سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔
ٹی وی اور فلموں میں اپنی مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے پہچانے جانے والے دانش نواز کا کہنا تھا کہ کامیڈی اور بدتمیزی میں فرق کرنے کے لیے سیلف سینسرشپ کا ہونا سخت ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے مذاق کرنے کی آزادی تو سب کو دے دی ہے لیکن اسے استعمال کرنے کا طریقہ نہیں سکھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس وقت پاکستان میں ہر کوئی کامیڈی کر رہا ہے یا اس کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ کوئی غلط بات نہیں لیکن مذاق اڑانے اور مذاق کرنے کے فرق کو سمجھ کر کوئی بھی قدم اٹھانا چاہیے۔ ان کے بقول اگر مذاق کرنے والا اپنے آپ کو دوسرے شخص کی جگہ رکھ کر سوچے تو شاید حد سے گزرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
دانش نواز نے یہ بھی کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی باصلاحیت لوگ اس فیلڈ میں آگے آئے ہیں۔ بقول ان کے جو مذاق و تذلیل میں فرق سمجھے گا۔ کامیاب بھی وہی ہوگا۔