سینیٹ کی عدلیہ کے متعلق کمیٹی نے سپریم کورٹ کے لیے جج بیرٹ کی نامزدگی کی منظوری دے دی جبکہ ڈیموکریٹ اراکین نے رائے دہی کا بائیکاٹ کیا۔
سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی نے ری پبلکن ارکان کی قیادت میں اور ڈیموکریٹک ممبران کے بائیکاٹ کے دوران جمعرات کے روز جج ایمی کونی بیرٹ کی سپریم کورٹ کیلئے نامزدگی کی 12 ووٹوں کی حمایت سے منظوری دے دی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ حتمی منظوری کے لیے پیر کے روز پوری سینیٹ اس پر رائے دہی کرے گی۔
رائے شماری کے بعد ،جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین، سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹ ممبران کو حق یا مخالفت میں ووٹ دینا چاہئیے تھا، بائیکاٹ کرنا،جج ایمی کونی بیرٹ سے نا مہربانی کے مترادف ہے۔
سینیٹ میں ریپبلکن جماعت کو 47 کے مقابلے میں 53 اراکین کی اکثریت حاصل ہے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے جج بیرٹ کی حتمی منظوری کے بارے خوش امیدی کا اظہار کیا۔
سینیٹر گراہم کا کہنا تھا کہ جج ایمی کونی بیرٹ سپریم کورٹ کی جسٹس بننے کی مستحق ہیں، اور ان منظوری ہو جائے گی۔ کمیٹی کے 12 ری پبلیکن ممبران نے کونی بیرٹ کے حق میں ووٹ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ جماعت کے لیڈر سینیٹر چک شمر نے جج بیرٹ کی منظوری کے لیے ہونے والی کاروائی پر اپنی جماعت کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ نامزدگی تین نومبر کو انتخاب میں منتخب ہونے والے صدر کے لیے چھوڑ دینی چاہئیے تھی۔
سینیٹر شمر کا کہنا تھا کہ جب صدر باراک اوباما نے جج میرِک گارلینڈ کو نامزد کیا تھا، تب سینیٹ میں موجود ریپبلکن ارکان نے یہی موقف اختیار کیا تھا کہ ووٹروں کو یہ فیصلہ کرنے دیں کہ سپریم کورٹ کا آئندہ جسٹس کون ہو گا اور کاروائی کو روک دیا تھا۔
سینیٹر چک شمر کا کہنا تھا کہ جج میرک گارلینڈ کو انتخابات سے آٹھ ماہ پہلے نامزد کیا گیا تھا، اور ہمیں انتخابات کا انتظار کرنا چاہئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کا عمل جاری ہے اور ہم اس نامزدگی پر جلد بازی سے کام لے رہے ہیں۔
انہوں نے جج بیرٹ کی نامزدگی کی منظوری کے لیے ہونے والی کاروائی کو سپریم کورٹ کی تاریخ میں ناجائز اور سب سے زیادہ جلد باز اور سب سے زیادہ جانب دار اقدام قرار دیا۔
سینیٹ میں اکثریتی ری پبلکن جماعت کے لیڈر سینیٹر مچ میکنل کا کہنا تھا کہ وہ جوڈیشری کمیٹی میں ہونے والی رائے شماری کے ساتھ جاتے ہوئے اتوار کے روز پوری سینیٹ سے ضابطے کے مطابق ووٹ کرنے کے لیے کہیں گے، جس کے بعد منظوری کے لیے حتمی رائے دہی پیر کے روز ہو گی۔
اگر جج بیرٹ کی نامزدگی کی منظوری ہو جاتی ہے تو وہ تا حیات سریم کورٹ کی جج رہیں گی اور سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی تعداد تین کے مقابلے میں چھ ہو جائے گی۔